نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غیر مقلدین کی طرف سے سجدوں کی رفع الیدین پر ایک اعتراض کا علمی اور تحقیقی رد, سنن نسائی باب: سجدہ کرتے وقت رفع یدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , تحریر : مفتی مجاہد صاحب


غیر مقلدین کی طرف سے سجدوں کی رفع الیدین پر ایک اعتراض کا علمی اور تحقیقی رد 


غیر مقلدین کی طرف سے سجدوں کی رفع الیدین پر ایک اعتراض کا علمی اور تحقیقی رد, سنن نسائی باب: سجدہ کرتے وقت رفع یدین کرنا   حدیث نمبر: 1086  , تحریر : مفتی مجاہد صاحب



تحریر : مفتی مجاہد صاحب

فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز


غیر مقلدین کے سامنے جب سنن نسائی سے سجدوں کے وقت رفع الیدین کرنے کی حدیث پیش کی جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے وقت اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع الیدین کرتے تھے تو اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس روایت میں راوی شعبہ نہیں ہے بلکہ سعید ہے غلطی سے سعید کی جگہ شعبہ لکھا گیا ہے کیونکہ سنن کبری میں راوی سعید ہی ہے اور سنن مجتبی سنن کبری کی تلخیص ہے  لہذا یہ حدیث ضعیف ہے 

پہلے سنن نسائی سے وہ حدیث پڑھ لیں 


«سنن النسائي» (2/ 359):

«‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود

1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن ‌ *شعبة* ، ‌عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم

عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»

 

سنن نسائی

کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث

باب: سجدہ کرتے وقت رفع یدین کرنا 

حدیث نمبر: 1086


ترجمہ:

مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے کہ  انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  کو نماز میں جب آپ رکوع کرتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، اور جب سجدہ کرتے، اور جب سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے  رفع یدین کرتے دیکھا، یہاں تک کہ آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں کی لو کے بالمقابل کرلیتے  

 تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ١١١٨٤)، وانظر حدیث رقم: ٨٨١ (صحیح  )   

 قال الشيخ الألباني: صحيح 


*سنن مجتبی کے تمام نسخوں میں راوی شعبہ ہی ہیں* 


سنن مجتبی کے تمام قلمی نسخوں میں راوی شعبہ ہی ہیں سنن مجتبی کے بہت نسخے دنیا میں موجود ہیں جن میں سے چار کا ذکر بطور خاص کیا جاتا ہے جن کو مدنظر رکھ کر (دار الرسالة العالمية) نے سنن مجتبی کو شائع کیا ہے

 

«سنن النسائي» (المقدمة/ 90):

«توافرَ لنا عدد من النُّسخ الخطيَّة، واخترنا منها أربعَ نُسخ كاملة جيدة كافية لتحقيق الكتاب، وهي نسخة دار الكتب المصريَّة (ك)، ونسخة المكتبة المحموديَّة (م)، ونسخة أخرى من دار الكتب المصرية (تعود إلى مكتبة أحمد تيمور باشا) (ر)، ونسخة هنديَّة (هـ)،» 

سنن مجتبی پر محققین نے یہی لکھا ہے کہ تمام قلمی نسخوں میں  راوی شعبہ ہی ہیں 

«سنن النسائي» (2/ 359):

«كذا ‌في ‌النسخ ‌الخطية و"تحفة الأشراف" (11184): شعبة،» 


*علامہ مزی جمال الدين أبو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن بن يوسف المزي متوفی 742 ه اور شعبہ راوی کی تصریح* ـ  


حافظ الحدیث علامہ مزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تحفة الأشراف بمعرفة الأطراف میں بھی راوی شعبہ کو ہی برقرار رکھا ہے 

جس کی تصریح ذیل میں نقل کی جاتی ہے 

شارح سنن مجتبی ( محمد بن علي بن آدم بن موسى الإثيوبي الوَلَّوِي) نے سنن نسائی کی شرح لکھی ہے  جس کا نام ہے «ذخيرة العقبى في شرح المجتبى»۔ اس میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ یہاں راوی شعبہ ہی ہے چنانچہ لکھتے ہیں 


«ذخيرة العقبى في شرح المجتبى» (13/ 270):

«[تنبيه]: وقع في "الكبرى" هنا "سعيد" بدل "شعبة"، وهو سعيد بن أبي عروبة، وهكذا أخرج الحديث ابن حزم في "المحلى" جـ 4 ص -92 - من طريق المصنف، ورجح المحقق أحمد محمد شاكر فيما كتبه على "المحلى" كونه "سعيدا" بدل "شعبة"، وادعى أن ما في "المجتبى" تصحيف، ولكنه لم يقم على دعواه حجة مقبولة.

قلت: الذي في "المجتبى" هو الذي ذكره الحافظ أبو الحجاج المزِّيّ في "تحفة الأشراف" جـ 8 ص 338 - والذي يترجح عندي أنه لا تصحيف، بل الروايتان صحيحتان، إذ يمكن أن يحمل على أن ابن أبي عدي رواه عن شعبة، وسعيد، كليهما. والله تعالى أعلم بالصواب.

«ذخيرة العقبى في شرح المجتبى» (13/ 270):


سنن کبری میں یہاں پر شعبہ کی جگہ سعید ہے اور سعید سے مراد سعید بن ابی عروبہ ہے اسی طرح علامہ ابن حزم نے محلی میں مصنف کے طریق سے جو روایت نقل کی ہے اس میں بھی راوی سعید ہی ہے اور شیخ احمد شاکر نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ یہاں پر شعبہ کی جگہ سعید ہے اور انہوں نے سنن مجتبی یعنی سنن نسائی میں تصحیف( مس پرنٹگ) کا دعوی کیا ہے لیکن اپنے دعوی پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکے 

(اگے شارخ خود لکھتے ہیں) 

میں یہ کہتا ہوں کہ جو کچھ سنن مجتبی میں ہے (یعنی وہاں پر  شعبہ راوی ہی ہے) یہ وہی بات ہے جس کا ذکر حافظ الحدیث علامہ مزی نے اپنی کتاب تحفۃ الاشراف میں ذکر کیا ہے انہوں نے بھی راوی شعبہ کو ہی برقرار رکھا ہے 

میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ یہاں پر تصحیف( مس پرنٹنگ)  نہیں ہے بلکہ دونوں روایتیں صحیح ہیں 

اس لیے کہ ممکن ہے کہ ابن ابی عدی نے شعبہ سے اور سعید دونوں سے روایت کی ہو( اور دونوں ثقہ راوی ہیں)

ایک بات یاد رہے کہ حافظ الحدیث علامہ مزی رحمہ اللہ جب تحفۃ الاشراف لکھ رہے تھے تو ان کے سامنے محدث امام نسائی کی دونوں کتابیں سنن کبری اور سنن مجتبی دونوں تھیں انہوں نے دونوں کتابوں کو سامنے رکھ کر جو فیصلہ کیا وہ یہی ہے کہ یہاں پر راوی شعبہ ہی ہے  

«سنن النسائي» (المقدمة/ 37):

«والواقع أنَّ الحافظ المِزِّيَّ اعتمد في "الأطراف" على "الصغرى" و "الكبرى" جميعًا، كما سلف من كلام السيوطي، وذكره قبله الحافظ ابن حجر»

 

*کیا سنن مجتبی سنن کبری کی تلخیص ہے ؟*

  

بعض علماء کی طرف سے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ سنن مجتبی یعنی سنن نسائی امام نسائی کی دوسری کتاب سنن کبری کی تلخیص ہے یہ دعوی بلا دلیل ہے سنن مجتبی کا شمار عام تلخیصات میں نہیں ہوتا کہ ایک مطول کتاب کو مختصر کر دیا جائے بلکہ سنن مجتبی میں ایسی احادیث اور اسناد بھی شامل کی گئی ہیں جو سننے کبری میں نہیں ہیں جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ محدث امام نسائی کی اخری کتاب سنن مجتبی میں کچھ ترمیم و اضافہ بھی کیا گیا ہے 

اور ہمارا مذکورہ بالا مقدمہ بھی اسی قبیل سے ہو سکتا ہے ہمارے بیانیہ کا خلاصہ درج ذیل حوالہ میں موجود ہے 

«سنن النسائي» (المقدمة/ 35):

«وذكر بالمقابل في "المجتبى" أبوابًا في العقود لم يذكرها في "السنن الكبرى"، كما في شركة عنان بين ثلاثة، وشركة مفاوضة … ، وزاد فيه أيضًا أحاديث؛ كما في الإيمان وشرائعه وآخر الجهاد مثلًا؛ بعضُ طُرُقِ أحاديثهما ليست في "الكبرى"، لكن ما زاده في "المجتبى" على "الكبرى" قليل، ولا إشكالَ عندئذٍ في قول من قالَ من الأئمة: إنّ "المُجتبى" مُنتخب من "السنن الكبرى"، لأنّهم قالوا ذلك فيه على التغليب، كما أنَّ بعض الأئمة أطلق اسمَ الصَّحيح على "سُننه" على التغليب أيضًا، والله أعلم.»


*حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا راوی شعبہ کو ہی برقرار رکھنا*  


حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب اطراف المسند میں اسی راوی شعبہ کو ہی برقرار رکھا ہے 


«إطراف المسند المعتلي بأطراف المسند الحنبلي» (5/ 245):

«7026 -[م د س ق] حديث: كان النبي صلى الله عليه وسلم يرفع يديه إذا دخل في الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع إلى أذنيه. (5: 53، 3: 437) عن يحيى بن سعيد ومحمد بن جعفر، عن شعبة . (5: 53) وعن عبد الصمد وأبي عامر، عن هشام. (5: 53) وعن عفان، عن همام، ثلاثتهم ‌عن ‌قتادة، ‌عن ‌نصر بن عاصم، عنه به.

[تحفة 8: 338 حديث 11184]»


*علامہ ابن حبان کا ضابطہ اور غیر مقلدین کی منافقت*  

پہلے ابن حبان کی عبارت بمع ترجمہ پڑھ لیں 


«المجروحين لابن حبان ت حمدي» (1/ 55):

«وإذا قال ابن أبي عدي: حدثنا ‌شعبة عن ‌قتادة، وحدثنا سعيد عن ‌قتادة، فإذأ ألزق طرف الدال في بعض الكتب حتى يصير سعيد ‌شعبة، خلصوا وقالوا: ليس هذا من حديث ‌شعبة، إنما هو لسعيد، وإن انفتح من الهاء فرجة حتى صار ‌شعبة سعيدًا ميزوا وقالوا: ليس هذا من حديث سعيد، هذا من حديث ‌شعبة،» 

جب ابن ابی عدی کہتے ہیں شعبہ عن قتادہ اور سعید عن قتادہ تو اگر دال کاکنارہ گول ہو جائے تو شعبہ بن جاتا ہے  اس سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے محدثین کہتے ہیں کہ یہ شعبہ کی حدیث نہیں ہے یہ تو سعید کی حدیث ہے۔

اور اگر شعبہ کی اخری ہا میں فرجہ رہ جائے تو شعبہ سعید بن جاتا ہے تو محدثین کے تمیز کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ یہ حدیث سعید کی نہیں ہے شعبہ کی ہے 

بعض غیر مقلدین کا دعوی یہ ہے کہ سنن کبری کے اندر راوی سعید تھا جو مس پرنٹنگ کی وجہ سے سنن مجتبی کے اندر شعبہ ہو گیا ہے 

اب ان کی منافقت دیکھیں اس کے برعکس بھی تو ہو سکتا تھا کہ سنن کبری میں مس پرنٹنگ( تصحیف)  ہو گئی ہو  جیسا کہ دیگر ائمہ رجال سے ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یہاں شعبہ ہی ہے 

لیکن شیخ زبیر علی زئی صاحب بضد ہیں کہ میں نے اس صحیح حدیث کو ضعیف ثابت کرنا ہے مگر ان کو کبھی بھی اس میں کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی کیونکہ دیگر کئی  محدثین نے اس حدیث کو صحیح لکھا ہے


*قتادہ راوی کی نصر بن عاصم سے سماع کی صراحت* 


غیر مقلدین کا اعتراض یہ ہے کہ قتادہ مدلس ہے جب تک سماع کی صراحت نہ ہو حدیث صحیح نہیں ہو سکتی لیجیے اسی قتادہ راوی کی روایت ہم صحیح مسلم سے پیش کر دیتے ہیں یہاں بھی صیغہ عن سے روایت کر رہے ہیں تو کیا غیر مقلدین یہاں بھی اس حدیث کو ضعیف الاسناد قرار دیں گے یا اپنا وہی اصول یاد رکھیں گے کہ اگر صحیحین میں کوئی مدلس راوی ہو اور صیغہ عن سے روایت کرے تو اس کی روایت سماع پر محمول ہوتی ہے 

اس حدیث میں بھی رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کا ذکر موجود ہے 


«صحيح مسلم» (1/ 293 ت عبد الباقي):

«25 - (391) حَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ. حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ ‌قَتَادَةَ، ‌عَنْ ‌نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم:

كَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ. وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ. وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، فَقَالَ "سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ"، فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ.»

 

اگر قتادہ کی تدلیس کا شبہ ابھی بھی باقی ہو تو ایک اور صریح روایت پیش کر دیتے ہیں جس میں سماع کی صراحت بھی موجود ہے  

«سنن النسائي» (2/ 205):

«880 - أخبرنا محمدُ بنُ عبد الأعلى قال: حدَّثنا خالدٌ قال: حدَّثنا شعبة، عن ‌قتادةَ قال: ‌سمعتُ ‌نَصْرَ بنَ عاصم

عن مالك بن الحُوَيْرث -وكان من أصحاب النبيِّ صلى الله عليه وسلم أن رسولَ الله صلى الله عليه وسلم كان إذا صلَّى رَفَعَ يَدَيْهِ حين يُكَبِّرُ حِيالَ أُذُنَيْه، وإذا أرادَ أن يركعَ، وإذا رفعَ رأسَه من الرُّكوع.»

 

دیکھیے یہاں پر قتادہ کے سماع کی صراحت بھی ہے اور شعبہ راوی بھی موجود ہیں 

جس سے یہ بات بخوبی طریقے سے یہ ثابت ہو جاتی ہے کہ قتادہ کا نصر بن عاصم سے سماع ثابت ہے  اور شعبہ کو بھی اس کی سند سے خارج نہیں کیا جا سکتا 


 *ایک اور زبردست قرینہ*


خود علامہ ابن حبان نے بھی شعبہ کی سند سے حدیث بیان کی ہے اگر جب روایت میں شعبہ ہو اور سماع کی صراحت نہ بھی ہو محدثین کے اصول کے مطابق وہ حدیث صحیح الاسناد ہوتی ہے 

علامہ ابن حبان کی حدیث ذیل میں نقل کی جاتی ہے 


«صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع» (7/ 158):

«أَخبَرنا أَبُو خَلِيفَةَ، قَالَ: حَدثنا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدثنا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ؛ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ. [1863]»


*حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا سعید کی روایت کو بھی اصح یعنی زیادہ صحیح  قرار دینا*


 علی سبیل التنزل اگر غیر مقلدین کا دعوی قبول بھی کر لیا جائے تو پھر بھی ہمیں کوئی مضر نہیں ہے کیونکہ  

 حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں سعید بن ابی عروبہ کے طریق سے بھی روایت نقل کی ہے اور اس کو متابعات کی وجہ سے صحیح الاسناد قرار دیا ہے 


«فتح الباري» لابن حجر (2/ 223 ط السلفية):

«وَأَصَحُّ مَا وَقَفْتُ عَلَيْهِ مِنَ الْأَحَادِيثِ فِي الرَّفْعِ فِي السُّجُودِ مَا رَوَاهُ النَّسَائِيُّ مِنْ رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ ‌قَتَادَةَ، ‌عَنْ ‌نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي صَلَاتِهِ إِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ رُكُوعِهِ، وَإِذَا سَجَدَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ سُجُودِهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ، وَقَدْ أَخْرَجَ مُسْلِمٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ طَرَفَهُ الْأَخِيرَ كَمَا ذَكَرْنَاهُ فِي أَوَّلِ الْبَابِ الَّذِي قَبْلَ هَذَا، وَلَمْ يَنْفَرِدْ بِهِ سَعِيدٌ فَقَدْ تَابَعَهُ هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ عِنْدَ أَبِي عَوَانَةَ فِي صَحِيحِهِ.»


اس اس کے دیگر متابعات بھی موجود ہیں نیز کئی محدثین نے بھی اس کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے 

لہذا غیر مقلدین کے اعتراض کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...