امام حماد بن ابی سلیمانؒ(م۱۲۰ھ) نےامام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰ھ)
کے حافظہ اور ضبط کی تعریف کی ہے۔
-مفتی ابو احمد بن اسماعیل المدنی
صدوق،حافظ الحدیث،امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ(م۴۳۶ھ) فرماتے ہیں کہ
أخبرنا عمر بن إبراهيم المقرىء قال ثنا مكرم قال ثنا احمد بن محمد بن مغلس قال ثنا نصر بن علي قال سمعت خالد بن الحارث يقول سمعت شعبة يقول سمعت حماد بن أبي سليمان يقول كان ابو حنيفة رحمه الله يجالسنا بالسمت والوقار والورع وكنا نغذوه بالعلم حتى دقق السؤال فخفت عليه من ذلك وكان والله حسن الفهم جيد الحفظ حتى شنعوا عليه بما هو والله أعلم به منهم فيلقون عدا الله وانا أعلم أن العلم جليس النعمان كما أعلم ان النهار له ضوء يجلو ظلمة الليل۔
ابو حنیفہ ؒ انتہائی سنجیدگی ، وقار اور تقوی کے ساتھ ہمارے پاس بیٹھا کرتے تھے، ہم انہیں علم کی غذا دیتے، یہاں تک کہ وہ دقیق سوالات کرنے لگے تواس سے مجھے ان پر خوف ہوا، قسم بخدا وہ بہترین فہم اور عمدہ یاد رکھنے والے تھے، یہاں تک کہ ان پر ایسی چیزوں کے بارے میں طعن وتشنیع کی گئی، جسے طعنہ دینے والوں کی بنسبت واللہ وہ زیادہ جانتے تھے تو وہ ان کے دشمن ہوگئے ، حالانکہ میں جانتا ہوں کہ علم ،نعمان کا ہم نشین ہے، جس طرح میں جانتا ہوں کہ دن کی ایک ایسی روشنی ہے جو رات کی تاریکی کو دور کرتی ہے ۔ (اخبار ابی حنیفۃ و اصحابہ للصیمری :ص۲۳)
سند کی تحقیق:
(۱) امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ(م۴۳۶ھ) مشہور صدوق،حافظ الحدیث ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم،الفوائد البهية في تراجم الحنفية:ص۶۷)
(۲) عمر بن ابراہیم بن احمد،ابو حفص الکتانی المقریؒ(م۳۹۰ھ) ثقہ ہیں۔(تاریخ الاسلام:ج۸:ص۶۶۶)
(۳) مکرم بن احمد البغدادیؒ(م۳۴۵ھ) بھی ثقہ ہیں۔(تاریخ الاسلام:ج۷:ص۸۲۸)
(۴) احمد بن عطیۃ متکلم فیہ راوی ہے۔
(۵) نصر بن علی الجہضمیؒ(م۲۵۰ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ،ثبت،حافظ الحدیث ہیں۔(تقریب: رقم۷۱۲۰)
(۶) خالد بن الحارث،ابو عثمان البصریؒ(م۱۸۶ھ) بھی صحیحین کے راوی اور ثقہ،ثبت،حافظ الحدیث ہیں۔(تقریب: رقم ۱۶۱۹)
(۷) شعبۃ بن الحجاجؒ(م۱۶۰ھ)بھی صحیحین کے راوی اور ثقہ،متقن،حافظ الحدیث اورامیر المومنین فی الحدیث ہیں۔ (تقریب:رقم۲۷۹۰)
(۸) امام حماد بن ابی سلیمان الکوفیؒ(م۱۲۰ھ)صحیح مسلم وسنن اربع کے راوی اورثقہ،امام،مجتہد ہیں۔(الکاشف)
لہذامعلوم ہوا کہ اس سند کے تمام راوی ثقہ یا صدوق ہیں۔البتہ احمد بن عطیۃ متکلم فیہ،ضعیف راوی ہے۔لیکن ان کے متابع میں صدوق راوی،ابو عبد اللہ، محمد بن حماد بن المبارک المصیصیؒ موجود ہے،چنانچہ ثقہ،ثبت،حافظ الحدیث،قاضی ابو القاسم، ابن ابی العوامؒ(م۳۳۵ھ) فرماتے ہیں کہ
حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: حدثني محمد بن المبارك المصيصي قال: ثنا علي بن الحسن بن شقيق قال: سمعت أبي يقول: سمعت شعبة بن الحجاج يحدث: عن حماد بن أبي سليمان قال: كان أبو حنيفة يجالسنا بحسن الهدي والفهم، فكنت أؤمله ثم شُنع عليه بما هو أعلم به منهم، فالله أعلم والله أعلم۔
ابو حنیفہ عمدہ طریقہ وفہم کے ساتھ ہمارے پاس بیٹھا کرتے تھے ، تو میں ان کے بارے میں امید کرتا تھا، پھر ان پر طعن وتشنیع کی گئی ایسی چیز کے بارے میں جو وہ ان لوگوں سے زیادہ جانتے تھے ۔ پس اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ (فضائل ابی حنیفۃواخبارہ لابن ابی العوام:ص۱۴۳)
سند کی تحقیق :
(۱) حافظ ابو القاسم ابن ابی العوامؒ(م۳۳۵ھ) ،
(۲) محمد بن حماد سے مراد ابو بشر،محمد بن احمد بن حماد الدولابیؒ(م۳۱۰ھ) اور
(۳) ابو عبد اللہ،محمد بن حماد بن المبارک المصیصیؒ کی توثیق گزرچکی ۔
(۴) محمدبن علی بن الحسن بن شقیقؒ(م۲۵۰ھ)سنن ترمذی وسنن نسائی کے راوی اور ثقہ،صاحب حدیث ہیں۔(تقریب : رقم۶۱۵۰)
نوٹ :
فضائل ابی حنیفۃواخبارہ لابن ابی العوام کے مطبوعہ نسخہ میں’’ علی بن الحسن بن شقیق‘‘ سے پہلے’’محمد بن ‘‘یا ’’ابن‘‘ ساقط ہوگیا،کیونکہ علی بن الحسن بن شقیقؒ(م۲۱۵ھ) ان کے شیوخ کے طبقہ سے نہیں ہیں۔واللہ اعلم
(۵) علی بن الحسن بن شقیقؒ(م۲۱۵ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(تقریب:رقم۴۷۰۶)
(۵) شعبۃبن الحجاجؒ(م۱۶۰ھ)،اور
(۶) امام حماد بن ابی سلیمانؒ(م۱۲۰ھ) کی توثیق گزرچکی۔
لہذا یہ سند حسن ہے۔واللہ اعلم
خلاصہ یہ کہ احمد بن عطیۃکے متابع میں صدوق راوی،ابو عبد اللہ، محمد بن حماد بن المبارک المصیصیؒ موجود ہیں،لہذااس روایت میں ان پر کلام فضول ہےاوران کی یہ روایت مقبول ہے، اور ثابت ہوا کہ امام حماد بن ابی سلیمانؒ(م۱۲۰ھ) نےامام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰ھ) کے حافظہ اور ضبط کی تعریف فرمائی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں