نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 4 : امام ابو یوسف نے کہا کہ ابو حنیفہ مرجئہ اور جہمیہ میں سے تھے۔


 کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی

 میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ : 


اعتراض نمبر 4 :

امام ابو یوسف نے کہا کہ ابو حنیفہ مرجئہ اور جہمیہ میں سے تھے۔


 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ مُسْلِمٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي يُوسُفَ: أَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ جَهْمِيًّا؟ قَالَ: نَعَمْ. قُلْتُ: أَكَانَ مُرْجِئًا؟ قَالَ: نَعَمْ. قُلْتُ: وَلَقَدْ قُلْتُ لَهُ أَرَأَيْتَ امْرَأَةً تَزَوَّجَتْ سِنْدِيًّا فَوَلَدَتْ لَهُ أَوْلَادًا مُفَلْفَلِي الرُّءُوسِ ثُمَّ تَزَوَّجَتْ بَعْدَهُ تُرْكِيًّا فَوَلَدَتْ لَهُ أَوْلَادًا صِغَارَ الْأَعْيُنِ، عِرَاضَ الْوُجُوهِ. قَالَ هُمْ لِلزَّوْجِ الْأَوَّلِ. قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ فَعَلَامَ كُنْتُمْ تُجَالِسُونَهُ؟ قَالَ: عَلَى مُدَارَسَةِ الْعِلْمِ


سعید بن مسلم کہتے ہیں: میں نے ابو یوسف (قاضی، اور امام ابو حنیفہ کے بڑے شاگرد) سے پوچھا: "کیا امام ابو حنیفہ جَہمی تھے؟" انہوں نے کہا: "ہاں۔" میں نے پوچھا: "کیا وہ مرجئہ میں سے تھے؟" انہوں نے کہا: "ہاں۔" میں نے کہا: "میں نے ایک مرتبہ ان سے کہا: اگر کوئی عورت کسی سِندی شخص سے نکاح کرے، اور اس سے کچھ بچے ہوں جن کے بال گھنے اور پیچیدہ ہوں، پھر وہی عورت ایک ترک شخص سے نکاح کرے اور اس سے کچھ بچے ہوں جن کی آنکھیں چھوٹی اور چہرے چپٹے ہوں، تو (ابو حنیفہ نے کہا) وہ سب پہلے شوہر کے ہوں گے۔" (یعنی وہ بچے پہلے شوہر کی طرف منسوب ہوں گے) میں نے کہا: "تو پھر آپ لوگ کس بنیاد پر ان کے ساتھ بیٹھتے تھے؟" ابو یوسف نے جواب دیا: "علم کے مذاکرے کے لیے۔"

(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/782 )


جواب : یہ روایت سندا ضعیف اور متن میں انتہائی نکارت رکھتی ہے۔ 


1۔ اول تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے سوال کرنے والے شخص کا نام یہاں غلط درج ہے۔  روایت میں جس راوی کو سعید بن مسلم کہا گیا ہے، اس کا درست نام سعيد بن سَلْم بن قتيبة بن مسلم الأمير الباهلي الخراساني ہے، جیسا کہ یہ تاریخ بغداد (15/530) اور أخبار القضاة (3/258) میں واضح طور پر مذکور ہے۔

أَخْبَرَنِي إبراهيم بْن أبي عُثْمَان قال: حَدَّثَنِي الفضل بْن سعيد بْن سلم عَن أبيه قال: قلت لأبي يوسف: أكان أَبُوْحَنِيْفَةَ يرى رأي جهم؟ قال: نعم، قلت فأين أنت منه؟ قال: لا أين، قلت: وكيف وأنت من أصحابه؟ قال: كان أَبُوْحَنِيْفَةَ رجلًا قد أوتي فهمًا، فكنا نأتيه وكان لنا مدرسًا.

( أخبار القضاة ٣/‏٢٥٨ )

وَقَالَ يَعْقُوب: حَدَّثَنَا أَبُو جزي بن عَمْرو بن سَعِيد بن  سالم، قَالَ: سَمِعْتُ جدي، قَالَ: قُلْتُ لأبي يُوسُف: أكان أَبُو حنيفة مرجئًا؟ قَالَ: نعم، قُلْتُ: أكان جهميا؟ قَالَ: نعم، قلت: فأين أَنْتَ منه؟ قَالَ: إنما كَانَ أَبُو حنيفة مدرسا، فما كَانَ من قوله حسنا قبلناه، وما كَانَ قبيحا تركناه عَلَيْهِ

(تاريخ بغداد - الخطيب البغدادي - ج ١٣ - الصفحة ٣٧٢)

اس کی تصدیق اس کے بیٹوں اور پوتوں کی روایت سے بھی ہوتی ہے، جیسا کہ:

مُحَمَّد بن سَعِيد بن سلم

الفضل بن سعيد بن سلم

أبو جزي بن عمرو بن سعيد بن سلم

 لہٰذا تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس روایت میں مذکور راوی کا اصل نام سعید بن سلم الباہلی، امیر خراسان ہے، نہ کہ "سعید بن مسلم" جیسا کہ بعض نسخوں میں تحریفاً ذکر ہوا ہے۔ یہی شخص تاریخ بغداد (ط۔ العلمية، 9/76) میں مذکور ہے۔

اور یہ راوی مجہول ہے، محدثین کی کتبِ رجال میں اس کی کوئی صریح توثیق موجود نہیں۔ کسی امامِ جرح و تعدیل نے اس کو نہ "ثقة" کہا، نہ "صدوق"۔

غیر مقلد معلمی یمانی نے اس مجہول راوی کو ثقہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں العباس بن مصعب کا قول نقل کیا ہے:

أَخْبَرَنَا محمد بن أحمد بن يعقوب، أخبرنا محمّد بن نعيم الضّبّي، أخبرنا أبو العبّاس السّيّاري، حدّثنا عيسى بن محمّد بن عيسى۔۔۔

قال العباس بن مصعب: قدم مرو- زمان المأمون سعيد بن سلم بن قتيبة بن مسلم، وكان عالما بالحديث والعربية، إلا أنه كان لا يبذل نفسه للناس.

یعنی: سعید بن سلم بن قتیبہ بن مسلم حدیث اور عربی زبان کا عالم تھا، لیکن خود کو لوگوں کے لیے پیش نہیں کرتا تھا کہ وہ اس سے کچھ سنیں یا پڑھیں۔

(تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ٩/‏٧٦ )

لیکن عرض یہ ہے کہ:

یہ کوئی صریح توثیق نہیں جس سے معلوم ہوا وہ کس درجہ کا عا تھا ، ثقہ تھا ، صدوق تھا ، وہم والا تھا ، ضعیف تھا ؟ 

بالفرض ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ عالم سے مراد ثقہ عالم ہو پھر بھی یہ کافی نہیں کیونکہ معلمی یمانی کی جو سند ہے اس میں خود بھی دو راوی مجہول ہیں:

1۔ خطیب کا شیخ محمد بن أحمد بن يعقوب: اس کا کوئی ترجمہ کتب رجال میں نہیں۔

2۔ العباس بن مصعب بن بشر: صرف ابن حبان نے اس کو "ثقة" کہا ہے، اور ابن حبان کے بارے میں اہلِ علم جانتے ہیں کہ وہ مجہولین کو بھی ثقات میں ذکر کر دیتے ہیں، لہٰذا ان کی توثیق تنہا حجت نہیں۔

 لہذا معلوم ہوا معلمی کی پیش کردہ سند ہی ضعیف ہے اور یہ راوی یعنی سعید بن سلم الباھلی مجہول ہے ۔ 

معروف سلفی عالم ناصر الدین البانی نے بھی اس راوی کو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے: 

"ففي ثبوته عن أبي يوسف نظر، لأن الباهلي هذا، لا يعرف بالرواية، ولذلك أغفلوه، ولم يترجموه في كتب الرجال، حتى ابن أبي حاتم لم يذكره في كتابه مع سعته وإحاطته..."

یعنی: " یہ باہلی راوی روایت کے لیے معروف ہی نہیں۔ محدثین نے اسے نظرانداز کیا اور کسی کتاب میں اس کا ترجمہ نہیں دیا، حتیٰ کہ ابن ابی حاتم نے بھی نہیں۔"(مختصر العلو للذهبي ص 156)

سعید بن سلم الباہلی کی توثیق سے متعلق امام ذہبیؒ کا تسامح :

امام ذہبی رحمہ اللہ نے سعید بن سلم بن قتيبة بن مسلم، الأمير، أبو محمد الباهلي الخراساني کے ترجمے میں "سعید بن سالم البصری" کی توثیق امام ابو حاتم سے منقول کر دی، حالانکہ یہ دو الگ راوی ہیں۔امام ذہبی نے (تاریخ الإسلام - تدمري 14/169) میں ترجمہ کے ضمن میں امام ابو حاتم کی توثیق کا حوالہ (الجرح والتعديل 4/31، رقم 129) سے دیا۔ مگر دراصل الجرح والتعديل میں جس راوی پر توثیق منقول ہے وہ "سعید بن سالم البصری" ہے، نہ کہ سعید بن سلم الباہلی۔امام ذہبی جیسا بڑے درجے کا حافظ بھی یہاں چوک گیا، اس کی کئی ظاہری وجوہ ہیں:

دونوں راویوں کے نام ملتے جلتے ہیں: سعید بن سلم اور سعید بن سالم۔

دونوں کا زمانہ قریب ہے۔

دونوں کی نسبت بصرہ سے ہے۔

دونوں نے ابن عون سے روایت کی ہے، جس سے شبہ مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے الجرح والتعديل کے محقق نے بھی یہ وضاحت کی ہے کہ: معلوم نہیں کہ کون ہے۔ (الجرح والتعديل ٤/ ٣١ رقم ١٢٩)

اگر امام ابو حاتم کی یہ توثیق واقعی سعید بن سلم الباہلی کے لیے ہوتی تو:

1۔ غیر مقلد محقق معلمی یمانی ضرور اسے اپنی تصدیق کے لیے پیش کرتے، لیکن انہوں نے ایسا کہیں بھی نہیں کیا

( النكت الجياد المنتخبة من كلام شيخ النقاد 1/337) 

2۔ناصر الدین البانی (غیر مقلد محقق) نے بھی توثیق کو پیش نہیں کیا۔

(مختصر العلو للذهبي ص 156)

 دیگر محدثین کی کتب بھی اس توثیق سے خالی ہیں:

متقدمین و متأخرین محدثین اور محققین کی درج ذیل اہم کتب میں سعید بن سلم الباہلی کے ترجمے میں امام ابو حاتم کی کوئی توثیق منقول نہیں:

3۔ تاریخ بغداد (ط. العلمية، 9/76) — خطیب بغدادی نے ان کا ترجمہ ذکر کیا، مگر ابو حاتم کا کوئی قول نقل نہیں کیا۔

4۔ الأنساب (امام سمعانی، 1/275) —ابو حاتم کا کوئی قول نقل نہیں کیا۔

5۔ بغية الوعاة في طبقات اللغويين والنحاة (امام سیوطی، 1/584) — ابو حاتم کا کوئی قول نقل نہیں کیا۔

6۔ الطيوريات (1/111) — محققین دسمان یحییٰ معالی اور عباس صخر الحسن نے ابو حاتم کی توثیق کا ذکر نہیں کیا۔

 الموسوعة الميسرة في تراجم أئمة التفسير والإقراء والنحو واللغة (1/951) — اس میں بھی ابو حاتم کا کوئی قول نقل نہیں ہے۔

امام کوثری رحمہ اللہ، جو احناف کے مدافع ہیں، انہوں نے بھی اس توثیق کو نقل نہیں کیا۔

(الجرح والتعدیل 4/31 رقم 129)  میں صاف الفاظ ہیں:

٤٤٣٧ - سعيد بن سَلْم  البصري.

عن ابن عون، قال أبو حاتم: أتيته وكان عنده عن ابن عون حديث، وكان محله الصدق

یعنی امام ابو حاتم نے سعید بن سالم بصری سے ابن عون کی حدیث سنی اور حکم لگایا کہ یہ راوی صدق و دیانت کے راویوں کے درجہ پر ہے۔  

امام ابو حاتم رحمہ اللہ کی پیدائش 195ھ میں ہوئی ہے جبکہ سعید بن سلم الباہلی کی وفات

 209ھ یا 210ھ میں ہوئی ہے 

اگر وفات کا زیادہ سے زیادہ وقت (210ھ) لیا جائے، تو امام ابو حاتم کی عمر اس وقت صرف 15 سال تھی۔  کیا 15 سال کا ایک طالب علم کسی راوی سے روایت سن کر "محلہ الصدق" جیسا اعلیٰ درجہ کا حکم لگا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لہذا ثابت ہوتا ہیکہ امام ابو حاتم کی جو توثیق "محله الصدق" کے الفاظ سے منقول ہے، وہ سعید بن سالم البصری کے بارے میں ہے،

اور امام ذہبی رحمہ اللہ سے تسامح ہوا ہے کہ انہوں نے اسے غلطی سے سعید بن سلم الباہلی کے ترجمے میں ذکر کر دیا۔

خلاصہ:

ان تمام شواہد کی بنیاد پر یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ:

 امام ابو حاتم کی توثیق سعید بن سلم الباہلی کے بارے میں ثابت نہیں ہے، بلکہ وہ توثیق سعید بن سالم البصری کے بارے میں ہے۔


فائدہ : غالی سلفی مقبل بن ہادی الوادعی نے اس روایت میں مذکور راوی "سعيد بن سلم" کی تعیین "سعيد بن مسلم بن بانك المدني أبو مصعب" کے ساتھ کی ہے، جو کہ تحقیقی اعتبار سے صریحاً غلط ہے۔ کتبِ حدیث و تراجم میں اس روایت کو سعید بن سلم کے بیٹے اور پوتے سے منقول بتایا گیا ہے، جیسا کہ:

مُحَمَّد بن سَعِيد بن سلم

الفضل بن سعيد بن سلم

أبو جزي بن عمرو بن سعيد بن سلم

جبکہ سعید بن مسلم بن بانک کے بیٹوں اور پوتوں کے یہ اسماء نہ تو کسی کتاب میں منقول ہیں، نہ ہی ان کی روایت سے کوئی تعلق ثابت ہے۔ لہٰذا اس بنیاد پر مقبل الوادعی کی یہ تعیین غیر محقق، غیر مدعّم، اور محلِ نظر ہے، اور فنِّ جرح و تعدیل کی روشنی میں اس کا کوئی علمی وزن نہیں۔ محض مشابہتِ اسم سے کسی راوی کی تعیین کر دینا، بغیر قرائن و دلائل کے، تحقیقی منہج کے خلاف ہے۔

2.  محمد بن معاذ بصری  اگرچہ یہ راوی ثقہ ہے لیکن اسے وہم بھی ہوتا ہے جیسا کہ امام عقیلی 

رحمۃ  اللہ علیہ اور امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے

لہذا یہ سند صحیح نہیں

 اسکا متن بھی امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے صحیح سند سے منقول قول کے خلاف ہے 

جسے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اسماء الصفات صفحہ 656 میں نقل کرنے کے بعد راویوں کو ثقہ کہا… جس میں ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہم جیسی رائے ( سوچ / عقیدہ) رکھتے تھے تو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے کہا معاذ اللہ ( یعنی وہ ایسی سوچ یا عقیدہ نہیں رکھتے تھے ) میں بھی ایسی سوچ نہیں رکھتا…

اسکے علاوہ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہم جیسا عقیدہ رکھتے تھے تو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں ترک کیوں نہیں کر دیا تھا، کیونکہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کے مطابق کتابیں لکھتے تھے جسکی وجہ سے دنیا میں فقہ حنفی کو پھیلنے کا موقع ملا… کیا وجہ تھی کہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد کے ساتھ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مغفرت کی دعا کرتے تھے… جیسا کہ اخبار القضاۃ 258/3 پر حسن سند سے موجود ہے…






مزید مکمل تفصیل کیلئے ، اس لنک پر کلک کریں۔


اعتراض نمبر 40 : مرجئہ اہل سنت اور مرجئہ اہل بدعت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ


اعتراض نمبر5 :امام اعظم ابو حنیفہ سے عقیدہ خلق قرآن کی تردید اور فرقہ جھمیہ کی تردید کا ثبوت


اعتراض نمبر 21: کہ ابو مسہر نے کہا کہ ابو حنیفہؒ مرجٸہ کے سردار ہیں


اعتراض نمبر 22: کہ امام ابو حنیفہ دوسروں کو مرجئہ بننے کی دعوت دیتے تھے۔


اعتراض نمبر 23: کہ امام ابو یوسف نے کہا کہ ابو حنیفہ مرجئہ اور جہمیہ میں سے تھے


اعتراض نمبر 24: کہ ابو یوسف نے ایک آدمی سے کہا کہ تو ابو حنیفہ کے متعلق پوچھ کر کیا کرے گا ؟ وہ تو اس حال میں مرا تھا کہ جہمی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...