اعتراض: ابن الجارود نے کہا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے اسلام میں اختلاف کیا گیا ہے۔
وَقَالَ ابْنُ الْجَارُودِ فِي كِتَابه فى الضُّعَفَاءِ وَالْمَتْرُوكِينَ النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ أَبُو حَنِيفَةَ جُلُّ حَدِيثِهِ وَهْمٌ وَقَدِ اخْتُلِفَ فِي إِسْلامِهِ فَهَذَا وَمِثْلُهُ لَا يَخْفَى عَلَى مَنْ أَحْسَنَ النَّظَرَ وَالتَّأَمُّلَ
اور ابن الجارود نے اپنی کتاب الضعفاء والمتروكين میں کہا: "نعمان بن ثابت ابو حنیفہ – ان کی اکثر حدیث وہم (غلطی) ہے، اور ان کے اسلام میں اختلاف کیا گیا ہے۔" پھر امام ابن عبد البر فرماتے ہیں: "پس یہ اور اس جیسی بات کسی پر مخفی نہیں رہتی جو غور وفکر سے دیکھنے والا ہو۔" (الانتقاء في فضائل الثلاثه الائمه الفقهاء : ابن عبد البر 1/150)
جواب: امام ابو حنیفہؒ کی وفات 150ھ میں ہوئی اور ابن الجارود کی ولادت تقریباً 230ھ میں۔ یعنی دونوں کے درمیان کم از کم اسی (80) برس کا فاصلہ ہے۔ جب ابن الجارود نے امام ابو حنیفہؒ کو نہ دیکھا اور نہ ملاقات کی، تو وہ کس بنیاد پر اتنا بڑا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ یہ تو کھلا ہوا دعویٰ بلا دلیل ہے۔ مزید یہ کہ انہوں نے نہ کوئی سند ذکر کی، نہ یہ بتایا کہ کن لوگوں نے امام ابو حنیفہؒ کے اسلام پر اعتراض کیا۔ بے سند بات ہمیشہ مردود ہوتی ہے، اور یہ اصولِ محدثین کا مسلمہ قاعدہ ہے۔ ابن الجارود کے اس قول میں دراصل دو اعتراض ہیں:
-
ایک امام ابو حنیفہؒ کے علمِ حدیث پر۔
-
دوسرا ان کے ایمان پر۔
جہاں تک حدیث کا تعلق ہے، تو یہ کہنا کہ ان کی تمام حدیث وہم ہے، سراسر زیادتی ہے۔ آپ کے شاگردوں میں وہ اکابر محدثین شامل ہیں جن سے بخاری و مسلم نے روایت لی، مثلاً: ابن المبارک، ابو عاصم النبیل، ابراہیم بن طہمان۔ تو سوال یہ ہے کہ اگر امام ابو حنیفہؒ ضعیف یا غیر معتبر ہوتے تو کیا بخاری و مسلم کے رواۃ ان سے علم لیتے؟ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہ صرف علمِ فقہ کے بانیوں میں سے ہیں، بلکہ شریعتِ اسلامیہ میں فہم و بصیرت اور علمِ حدیث و اجتہاد کے ایسے درخشاں مینار ہیں، جن پر پورے اسلامی علمی ورثے کا دار و مدار قائم ہے۔ جیسا کہ امام شافعیؒ کا قول ہے: "العلم يدور على ثلاثة: مالك، والليث، وابن عيينة" یعنی: "علم ( حدیث ) کا مدار تین شخصیات پر ہے: امام مالکؒ، امام لیثؒ، اور ابن عیینہؒ"۔ امام ذہبیؒ (م 748ھ) اس قول پر اضافہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"قلت: بل وعلى سبعة معهم، وهم: الأوزاعي، والثوري، ومعمر، وأبو حنيفة، وشعبة، والحمادان" (سیر أعلام النبلاء: ج 8، ص 94)
گویا امام ابو حنیفہؒ کو اُن سات ائمہ میں شمار کیا گیا ہے جن پر علم حدیث کا دارومدار ہے۔
● سخت گیر ناقدینِ حدیث جیسے یحییٰ بن معین اور شعبہ بن الحجاج نے بھی امام ابو حنیفہ کو ثقہ تسلیم کیا۔ کیونکہ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی اگر کسی غیر معروف ( مجہول ) راوی سے حدیث روایت کر دیں تو وہ ثقہ شمار ہوتا ہے، تو جب انہوں نے ابو حنیفہؒ کی واضح توثیق کی، تو اس سے بڑا علمی اعتراف کیا ہو سکتا ہے؟
● اس کے علاوہ عبداللہ بن المبارک، ابن معین ، یحییٰ بن سعید قطان، وکیع بن الجراح، اور مکی بن ابراہیم جیسے حفاظِ حدیث امام ابو حنیفہ کی رائے اور ان کے اجتہادات پر نہ صرف اعتماد کرتے تھے بلکہ بقول امام ابن معین امام یحیی بن سعید القطان اور امام وکیع امام ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ بھی دیتے تھے ۔
● سید الفقہاء امام شافعی، شیخ الاسلام یزید بن ہارون، محدث عبدالرزاق الصنعانی ، قاضی کوفہ قاسم بن معن ، صاحب سنن امام ابو داود ، جلیل القدر محدث مسعر بن کدام جیسے اکابرین امت نے انہیں اپنے دور کا ( سب سے بڑا ) فقیہ ، متقی ، پرہیزگار ، امام ، شریعت کا ماہر قرار دیا۔
یہی وہ مقام تھا جس کے باعث: امام فضل بن دکین ، محدث وکیع بن الجراح ، محدث زہیر بن معاویہ اور محدث حماد بن زید جیسے محدثین، جو صرف ثقہ راویوں سے روایت کرتے تھے، امام ابو حنیفہ سے روایت کرتے تھے۔ جو امام ابو حنیفہ کی روایت حدیث میں ثقہ ہونے کی علامت ہے.
امام اعظم ابو حنیفہؒ وہ عظیم المرتبت مجتہد، فقیہ، اور محدث ہیں جن کی فقہ، بصیرت، حدیث فہمی اور تقویٰ پر نہ صرف ان کے معاصرین بلکہ بعد کے ائمہ کرام نے بھی اعتماد کیا۔ امام ابو حنیفہؒ کا مقام محض ایک فقیہ کا نہیں، بلکہ ایک مجتہد مطلق، محدثِ بصیر اور مفکرِ ملت کا تھا، جنہوں نے فقہ کو روایت کے ساتھ درایت کا لباس عطا کیا۔ مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
اب رہی بات ایمان پر اعتراض کی۔ یہ ابن الجارود کا سب سے بڑا افتراء ہے۔یہاں کچھ مجہول اور نامعلوم لوگوں کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ کے اسلام میں اختلاف کا دعویٰ کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کون تھے جنہوں نے اتنا سنگین الزام لگایا؟ نہ ابن الجارود نے ان کے نام ذکر کیے، نہ ہی کسی معتبر سند کے ساتھ یہ بات سامنے آئی۔ لہٰذا ایسے مجہول افراد کی بے بنیاد باتوں پر یقین کرنا عقل و انصاف دونوں کے خلاف ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس نے اپنے بھائی کو کہا: اے کافر! تو دونوں میں سے ایک پر یہ بات لوٹ آئے گی۔ اگر وہ ایسا ہی ہے جس طرح اس نے کہا (تو ٹھیک)، ورنہ یہ بات کہنے والے پر پلٹ آئے گی۔" [صحیح مسلم، کتاب الایمان، حدیث: 216]
اب سوچیے: ابن الجارود نے جس ہستی کے اسلام پر انگلی اٹھائی، وہ وہی امام ہیں جن کی فقہ پر 1400 سال سے امت عمل کر رہی ہے۔ کیا یہ سب لوگ غلط اسلام پر تھے؟
امام ابو حنیفہؒ کے تلامذہ میں ابن المبارک ، حماد بن زیدؒ، امام ابو نعیم فضل بن دکینؒ ، مکی بن ابراہیمؒ ، ابو عاصم النبیل اور ابراہیم بن طہمان جیسے جلیل القدر ائمہ و محدثین شامل ہیں۔صحیحین (بخاری و مسلم) میں امام ابو حنیفہؒ کے تلامذہ کی روایات موجود ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ کہا جائے گا (مَعاذَ اللہ) کہ بخاری و مسلم جیسی صحیح اور معتبر ترین کتب بھی اُن لوگوں سے منقول ہیں جنہوں نے کسی "کافر" سے حدیث روایت کی ہو؟! اگر امام اعظمؒ کے اسلام پر شبہ کیا جائے تو لازم آئے گا کہ ان اکابر محدثین اور ان کی روایتوں پر بھی سوال اٹھایا جائے، جو کہ سراسر باطل اور عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے۔
کیا یحییٰ بن معین، وکیع، ابن القطان جیسے محدثین (مَعاذَ اللہ) ایک کافر کی فقہ پر اعتماد کرتے تھے؟ امام بخاری کے استاد مکی بن ابراہیم نے خود ابو حنیفہؒ کو "سب سے بڑا عالم" کہا۔ کیا مکی بن ابراہیم (جو امام بخاری جیسے جلیل القدر محدث کے استاد ہیں) غلط تھے؟
یہ امر کسی پردے میں ڈھکا چھپا نہیں کہ ابن الجارود تعصب کی تاریک سرنگ میں اس قدر بھٹک گئے کہ امام ابو حنیفہؒ کے درخشاں کردار پر کفر کی سیاہی پھینکنے کا قصد کیا۔ لیکن امام اعظمؒ کی سچائی کا آفتاب اس درجے کا تاباں تھا کہ نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق: 'جو کسی مومن کو کافر کہے تو وہ کلمہ اسی کی طرف پلٹتا ہے' — لہٰذا یہ کفر کا بے بنیاد الزام خود ابن الجارود کے کردار کو ہی سیاہ کر گیا۔ یوں تاریخ نے ان کے نام پر ایک بدنامی کی مُہر ثبت کردی اور انہیں اُن بدنصیب متعصبوں کی صف میں لا کھڑا کیا جنہوں نے پوری امت کے امام کے ایمان پر حملہ کرنے کی جسارت کی۔ مگر امام ابو حنیفہؒ کی عظمت و رفعت، آفتابِ نیم روز کی مانند، کل بھی تاباں تھی، آج بھی جگمگا رہی ہے اور تا قیامت اپنی روشنی بکھیرتی رہے گی۔
چونکہ ہم اہلِ سنت والجماعت سے ہیں، اس لیے ہم حسنِ ظن رکھتے ہیں کہ شاید ابن الجارود تک وہ ضعیف روایات پہنچی ہوں جن میں بعض ضعیف راویوں نے یہ بات منقول کی کہ امام ابو حنیفہؒ (مَعاذَ اللہ) اسلام پر نہ تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام روایات خود ضعیف ہیں اور ضعیف روایات سے نہ کوئی الزام ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی ایسی باتوں کی کوئی وقعت رہتی ہے۔
تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
اعتراض نمبر 15: امام ابو حنیفہ کے ہاں جوتے کی عبادت جائز ہے۔
اعتراض نمبر 16 : قاضی شریک نے کہا کہ ابو حنیفہ قرآن کریم کی دو آیات کا انکار کرتے ہیں
اعتراض نمبر 17: امام ابو حنیفہ نے کہا کہ حضرت ابو بکرؓ کا ایمان اور ابلیس کا ایمان برابر ہے
اعتراض نمبر 36: کہ حماد بن ابی سلیمان نے ابو حنیفہ کو مشرک کہا اور اس کے مذہب سے بیزاری ظاہر کی۔
اعتراض 41 کہ قاضی شریک نے کہا کہ ابو حنیفہ سے کفر سے توبہ طلب کی گئی تھی۔
اعتراض نمبر 42: کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئی۔
ائمہ و اسلاف سے ابن الجارود کا رد
سب سے پہلے ہم امام ابن عبد البرؒ کا قول پیش کرتے ہیں، جو انہوں نے اسی روایت کے ساتھ متصل ذکر کیا ہے۔
فَهَذَا وَمِثْلُهُ لَا يَخْفَى عَلَى مَنْ أَحْسَنَ النَّظَرَ وَالتَّأَمُّلَ
امام ابن عبد البر فرماتے ہیں: "پس یہ اور اس جیسی بات کسی پر مخفی نہیں رہتی جو غور وفکر سے دیکھنے والا ہو۔" (الانتقاء في فضائل الثلاثه الائمه الفقهاء : ابن عبد البر 1/150)
یعنی ابن عبد البرؒ نے جس اعتراض کو نقل کیا، اسی اعتراض کو انہوں نے خود ہی کوئی وقعت نہ دی۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے پوری کتاب ہی امام صاحبؒ کے فضائل پر لکھی ہے الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء (مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم) ۔ اگر واقعی یہ اعتراض درست اور ثابت ہوتا تو وہ امام ابو حنیفہؒ کے فضائل پر کتاب کیوں لکھتے؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ابن عبد البرؒ نے اس قول کو عَرضِ عبور کیا اور اسی کتابِ فضائل میں نقل کر کے اس کا رد بھی کردیا۔ لہٰذا غیر مقلدین کو اس مقام پر خوش ہونے کے بجائے اپنی عقل پر ماتم کرنا چاہیے۔
یہی امام ابن عبد البرؒ ایک اور مقام پر امام ابو حنیفہؒ کے دفاع میں یوں لکھتے ہیں کہ "أفرط بعض أصحاب الحديث في ذمّ أبي حنيفة، وتجاوزوا الحدّ في ذلك" "بعض اہلِ حدیث نے امام ابو حنیفہؒ کی مذمت میں بے اعتدالی اور زیادتی کی۔" ( جامع بيان العلم و فضله، 2/1080)
2.الإمام المحدث الفقيه امام بدر الدین عینیؒ (شارح بخاری)
(الإنتقاء في فضائل الائمة الثلاثة الفقهاء - 287 : محقق عبدالفتاح ابو غدہ )
امام ابن المبرد الحنبلی نے بھی ابن الجارود کے اس قول کو نقل کرنے کے بعد اس کا رد کیا ہے۔ وہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (هذا افتراءٌ لا يليق بمثله) یعنی: یہ تہمت اور جھوٹ ہے جو امام ابو حنیفہؒ جیسے جلیل القدر شخصیت پر لگانا بالکل نامناسب ہے( المنتقى من تنوير الصحيفةص 138)۔ امام ابن المبرد خود حنبلیہ کے مشہور ائمہ میں شمار ہوتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کی عظمت و مقام کا دفاع صرف احناف ہی نہیں بلکہ دیگر مکاتبِ فکر کے بڑے ائمہ نے بھی کیا ہے۔
محقق عبدالفتاح ابو غدہ نے ابن الجارود کے اس قول کے حاشیہ میں لکھا ہیکہ
أعوذ بالله من مثل هذا الكلام، في ذلك الإمام، ولذا قال الإمام البدر العيني شارح البخاري في تاريخه الكبير عقد الجمان»، في ترجمة أبي حنيفة، عند ذكره لقول ابن الجارود في أبي حنيفة : وقد اختلف في إسلامه): «الذي يقول في أبي حنيفة : قد اختلف في إسلامه. يقال فيه : لا يُختلف في عدم إسلامه، وهل يحل لمن يتسم بالإسلام أن يقول هذا القول ؟! . انتهى كلام الإمام البدر العيني . وقد استغنى الحافظ ابن عبد البر عن إسقاط كلام ابن الجارود، بسقوط الكلام نفسه بنفسه، فقال عقبه: فهذا ومثله لا يخفى على من أحسن النظر والتأمل ما فيه؟. انتهى. وهذه عادة أكابر العلماء المتقدمين في إبطال ما يرونه باطلاً، يكتفون فيه بمثل هذه الكلمات المعدودة،
"میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ایسے کلمات سے جو امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں کہے گئے۔ اسی لیے امام بدر العینیؒ، جو بخاری کے شارح ہیں، نے اپنی کتاب التاریخ الکبیر عقد الجمان میں امام ابو حنیفہؒ کے ترجمہ میں ابن الجارود کے قول (کہ ابو حنیفہؒ کے اسلام میں اختلاف کیا گیا ہے) کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:'جو شخص امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں یہ کہے کہ ان کے اسلام میں اختلاف ہے، تو اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اس کے اپنے اسلام میں کوئی اختلاف نہیں — یعنی اس کا اسلام نہ ہونا بالکل یقینی ہے۔ اور کیا کسی شخص کے لیے جو اسلام کا نام لیتا ہو یہ جائز ہے کہ ایسا قول زبان پر لائے؟' امام بدر العینیؒ کا کلام ختم ہوا۔
حافظ ابن عبد البرؒ نے بھی ابن الجارود کے اس قول کو گرانے کے لیے کوئی تفصیلی رد نہیں دیا، بلکہ اسی کلام کے اندر موجود تضاد اور گراوٹ کو کافی سمجھا۔ چنانچہ انہوں نے اس کے بعد فرمایا: 'یہ اور اس جیسے اقوال، جو غور و فکر کرے اس پر مخفی نہیں رہتے کہ اس میں کیا فساد ہے۔' کلام ختم ہوا۔یہی بڑے بڑے ائمہ اور سلف علماء کا طریقہ رہا ہے کہ جس بات کو وہ سراسر باطل سمجھتے تھے، اس کے رد کے لیے زیادہ الفاظ اور سخت زبان استعمال نہیں کرتے تھے۔ بلکہ چند الفاظ میں بات ختم کر دیتے تھے۔
(الإنتقاء في فضائل الائمة الثلاثة الفقهاء - 287 : محقق عبدالفتاح ابو غدہ )
کتبِ مناقب کی روشنی میں امام ابو حنیفہؒ کی توثیق
یہ بھی یاد رہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے مخالفین میں بھی کسی نے بن الجارود کے اس اعتراض کو اہمیت نہ دی۔ نہ ابن عدی نے، نہ خطیب بغدادی نے، نہ ابن جوزی نے۔ حالانکہ یہ سب بعد کے دور میں تھے اور بعض تو متعصب ناقد بھی تھے۔ لیکن انہوں نے بھی اسے نقل نہیں کیا کیونکہ یہ بالکل ہی بے بنیاد اور فضول بات تھی۔
خلاصہ
ابن الجارود کا اعتراض دلیل سے خالی اور سراسر تعصب کی پیداوار ہے۔ نہ اس کی کوئی معتبر سند ہے، نہ کسی جلیل القدر محدث یا فقیہ نے اسے تسلیم کیا۔ بلکہ برعکس، امت کے بڑے بڑے ائمہ جیسے امام ابن عبد البر، بدر الدین عینی، ابن المبرد حنبلی، اور خود اہلِ حدیث کے اکابر علما نے اس اعتراض کو باطل قرار دیا۔ امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت وہ آفتاب ہے جس کی روشنی پر چودہ صدیوں سے امتِ مسلمہ کی علمی و فقہی زندگی قائم ہے۔ ان کے اسلام پر انگلی اٹھانا دراصل پوری امت کے ایمان پر حملہ ہے۔ امام اعظمؒ کا نام رہتی دنیا تک علم، فقہ، اجتہاد اور تقویٰ کے تاج کے ساتھ جگمگاتا رہے گا۔
امام ابو حنیفہؒ کی شان میں بے ادبی
آخر میں ہم صرف ایک حوالہ اُن غیر مقلدین کے لیے پیش کرتے ہیں جو امامِ اعظمؒ کی گستاخی کرتے ہیں: مشہور اہلِ حدیث عالم علامہ داؤد غزنوی لکھتے ہیں:
اس سے واضح ہے کہ خود اہلِ حدیث کے بڑے علما نے بھی امام ابو حنیفہؒ کی شان میں بے ادبی کو کفر اور ارتداد کے مترادف قرار دیا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں