اعتراض نمبر 38 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ، ان کے بیٹے حمادؒ اور ان کے پوتے اسماعیل بن حماد تینوں ہی ضعیف ہیں۔
کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از محدث امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ)
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 38 :
امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ، ان کے بیٹے حمادؒ اور ان کے پوتے اسماعیل بن حماد تینوں ہی ضعیف ہیں۔
قال الشيخ: وإسماعيل بن حماد بن أبي حنيفة ليس له من الروايات شيء ليس هو، ولاَ أبوه حماد، ولاَ جده أبو حنيفة من أهل الروايات، وثلاثتهم قد ذكرتهم في كتابي هذا في جملة الضعفاء.
(الكامل في ضعفاء الرجال 1/509)
جواب :درحقیقت یہاں امام ابنِ عدی نے جو جرح کی ہے، اس کی اصل وجہ اور محرّک امام ابو حنیفہؒ کی ذات ہے۔ لہٰذا ہم اس کا جواب امام ابو حنیفہؒ کے حوالے سے ہی پیش کریں گے۔ جہاں تک امام ابن عدی کی جانب سے امام ابو حنیفہؒ پر کی گئی جرح کا تعلق ہے، تو اصولی اور تحقیقی اعتبار سے یہ جرح قابلِ قبول نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ: امام ابن عدی نے امام ابو حنیفہؒ کو ضعیف کہا ہے، لیکن یہ جرح "غیر مفسر" ہے ، کسی کو ضعیف کہہ دینے سے کوئی راوی ضعیف نہیں ہو جاتا ، غیر مقلد اہلحدیثوں کے محقق زبیر علی زئی لکھتا ہے :
جرح اگر غیر مفسر ہو تو وہ معتبر نہیں سمجھی جاتی، خصوصاً اس وقت جب اس کے مقابلے میں ائمہ و محدثین کی ایک بڑی جماعت امام ابو حنیفہؒ کی ثقاہت اور امامت کی تصریح کی ہو۔حقیقت یہ ہے کہ جمہور محدثین، فقہاء اور ائمہ حدیث نے امام ابو حنیفہؒ کو ثقہ، ثبت اور حجت قرار دیا ہے۔ متعدد ائمہ نے انہیں فِقہ اور حدیث میں امام تسلیم کیا ہے۔ اس گواہی کے مقابلے میں ابن عدی کی غیر مفسر جرح کوئی اثر نہیں رکھتی۔ مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
مزید برآں، ہم نے خود امام ابن عدی کی کتاب "الکامل" میں ان تمام اعتراضات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جن کی بنیاد پر انہیں امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض تھا۔ حالانکہ اصولِ نقد و تحقیق کی روشنی میں یہ اعتراضات محلِ نظر ہیں ، جن کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
تحقیق سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوئی کہ ان روایات میں نہ امام ابو حنیفہؒ سے کسی قسم کی وہم یا غلطی کا صدور ہوا ہے اور نہ ہی سند یا متن کے اعتبار سے ان کے نقل کردہ روایت میں کوئی ایسی کمزوری پائی جاتی ہے جسے علمی معیار کی روشنی میں تضعیف کا سبب قرار دیا جا سکے۔ یہ نتیجہ سامنے آنے کے بعد یہ بات خود بخود ثابت ہو جاتی ہے کہ امام ابنِ عدیؒ نے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں جو تضعیف ذکر کی تھی، وہ دراصل ایک غیر مضبوط یا محلِ نظر بنیاد پر قائم تھی۔ جب اصل بحث کی بنا ہی کمزور ثابت ہو جائے، تو اس پر قائم کردہ تضعیف بلاشبہ اصولِ جرح و تعدیل کے اعتبار سے علمی وزن نہیں رکھتی۔ دوسرے الفاظ میں، جب اصولی تحقیق سے یہ متحقق ہو چکا کہ انہی روایات میں امام ابو حنیفہؒ ثقہ، ثبت اور قابلِ اعتماد راوی ہیں، توامام ابنِ عدیؒ کی جانب سے ان کے بارے میں ذکر کی گئی جرح علمی طور پر مؤثر نہیں رہتی اور نہ اسے محدثین کے مستند منہجِ نقد پر فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو سکتی ہے۔
بلکہ حیرت انگیز طور پر خود امام ابن عدی نے ہی بعد میں امام ابو حنیفہؒ کی مدح و فضائل پر "مسند لکھی۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کی رائے بعد میں مثبت ہو گئی تھی، اور وہ خود امام ابو حنیفہؒ کی عظمت کے معترف ہو گئے تھے — قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
امام ابو حنیفہؒ کا منہجی امتیاز: روایتوں کی تکرار نہیں، بلکہ استخراجِ اصول، تدوینِ فقہ اور دین کی
اصولی تشکیل
حقیقت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کی اصل شہرت روایت و جمعِ حدیث میں نہیں بلکہ فقہ، اصولِ استخراج، اور اجتہاد میں تھی۔ اسی لیے محدثین نے انہیں “صاحب الرائے” اور “امام الفقہاء” کہا ۔ امام صاحب کا علمی طریقہ یہ نہ تھا کہ ایک حدیث کے بیس یا تیس طرق جمع کریں (جیسا کہ محدثین کا طریقہ تھا)، بلکہ آپ کا کام تھا کہ صحیح و ثابت شدہ احادیث سے دین کے اصول اخذ کریں — پھر انہی اصولوں کی بنیاد پر جزئی مسائل کا استنباط کریں۔ یعنی محدثین کا کام بنیادی طور پر نقلِ روایت تھا،یعنی احادیث کو ان کے الفاظ اور اسانید کے ساتھ محفوظ کرنا ۔ یہ ایک نہایت عظیم ذمہ داری تھی، مگر اس کا دائرہ نقل تک محدود تھا، استنباط تک نہیں۔ اس کے برعکس امام ابو حنیفہؒ کا علمی منہج محض روایت کے حصول پر رُک نہیں جاتا تھا۔ وہ حدیث کو صرف جمع نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کے اندر مضمر احکام، مقاصد اور شرعی قواعد کی گہرائی میں اترتے تھے۔ امام صاحب کی توجہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے زیادہ اس کے فقہی نتائج اور قانونی بنیادوں پر ہوتی تھی۔ امام ابو حنیفہؒ حدیث کو محض یاد کرکے آگے نہیں بڑھتے تھے — بلکہ وہ اُس سے فقہی اصول مستنبط کرتے، اُن اصولوں کی روشنی میں امت کے لیے دائمی اور عملی مسائل مرتب کرتے۔ یہ کام ہر شخص کا نہیں — یہ محدّث کا نہیں بلکہ مجتہد کا کام ہے۔ حدیثوں کی تعداد محدود ہے، مگر قیامت تک پیدا ہونے والے مسائل لامحدود ہیں — ان لامحدود مسائل تک محدود احادیث سے راستہ نکالنا — یہی اجتہاد ہے۔ اور یہ وہ مقام ہے جہاں محدّث کا کام ختم ہوتا ہے اور مجتہد کا کام شروع ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے: “محدّث روایت تک پہنچاتا ہے — مگر مجتہد اُس روایت سے نظامِ شریعت تشکیل دیتا ہے۔ یہ وہ عظیم کارنامہ ہے جس کی گواہی خود حدیث دیتی ہے۔ جامع الترمذي کی مشہور روایت ہے: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ " “عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے“۔” جامع الترمذي 2645 (یہ حدیث بتا رہی ہے کہ فقیہ ہونا اللہ کی خاص عطا ہے۔)
حدیث میں مہارت کا انکار کرنا تاریخی بددیانتی ہے
اصحاب الحدیث نے امام ابو حنیفہؒ پر شدت اختیار کی
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 22 : امام یحیی بن سعید القطان کاامام ابوحنیفہ سے اخذ واستفادہ
اعتراض نمبر 3 :بعض محدثین نے قیاس اور رائے کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض وغیرہ کئے۔
اعتراض نمبر 37 : امام اعظم ابو حنیفہؒ پر محدثین کے تعصب کی چند شرمناک مثالیں
خلاصہ:
محدثین کا مقصد حفاظتِ دین تھا، جبکہ امام ابو حنیفہؒ اور اہلُ الرائے کا مقصد تدوین و تفہیمِ دین۔
پہلے گروہ نے وحی کو اس کی اصل صورت میں محفوظ رکھا، اور دوسرے گروہ نے اسی محفوظ دین کی تدوین کر کے اسے فقہ کی عملی و نفاذی شکل میں امت کے سامنے پیش کیا۔
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
قاضی اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہؒ(م۲۱۲ھ) ائمہ کی نظر میں۔
.jpeg)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں