نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 142 : کہ یحیٰی بن معین نے کہا کہ محمد بن الحسن کذاب اور جہمی تھے اور ابوحنیفہ بھی جہمی تھے کذاب نہ تھے۔


 اعتراض نمبر 142 : 

کہ یحیٰی بن معین نے کہا کہ محمد بن الحسن کذاب اور جہمی تھے اور ابوحنیفہ بھی جہمی تھے کذاب نہ تھے۔

أَخْبَرَنَا العتيقي، حَدَّثَنَا تَمَّامُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأذني- بدمشق- أَخْبَرَنَا أَبُو الميمون عَبْد الرَّحْمَنِ بْن عَبْدِ اللَّه البَجَلِيّ قَالَ: سَمِعْتُ نصر بن مُحَمَّد البَغْدَادِيّ يَقُولُ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْن معين يَقُولُ: كَانَ مُحَمَّد بن الحَسَن كذابا وَكَانَ جهميا، وَكَانَ أَبُو حنيفة جهميا ولم يكن كذابا. 


الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اللہ کی قسم وہ دونوں کذب اور جہمیت سے بری الذمہ تھے اور امام شافعی جو کہ خطیب کے امام ہیں انہوں نے محمد بن الحسن سے دلیل پکڑی ہے اور علی بن المدینی نے بھی اس کی توثیق کی ہے جیسا کہ ابن الجوزی نے اپنی کتاب المنتظم میں اور ابن حجر نے تعجيل المنفعة میں نقل کیا ہے۔ حالانکہ بے شک ابن معین کی نسبت ابن المدینی ابوحنیفہ کے اصحاب کو برا بھلا کہنے کی طرف زیادہ قریب تھے۔ اور الدار قطنی تو اپنے انتہائی تعصب کے باوجود غرائب مالک میں کہتے ہیں جبکہ انہوں نے الرفع فی الرکوع والی حدیث کے راویوں کا ذکر کیا کہ اس کو بیس ثقہ حفاظ حضرات بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے محمد بن الحسن الشیبانی بھی ہیں۔

 جیسا کہ نصب الرایہ ص 408 ج 1 میں ہے اور یہ بالکل ظاہر توثیق ہے[1]۔ 

اور ابن معین دیگر لوگوں کی بہ نسبت زیادہ بری الذمہ ہیں اس سے کہ وہ ان دونوں کو جھوٹا کہیں۔ اور ابن معین وہی ہے جس نے کہا کہ میں نے الجامع الصغیر محمد بن الحسن سے سنی ہے اور وہ ان لوگوں میں سے نہ تھا کہ ایسے لوگوں سے فقہ سیکھتا جو اس کی نظر میں کذاب تھے۔ اور اس کا تفصیل سے ترجمہ بلوغ الامانی میں ہے۔ اور آگے اس سے بعض احادیث خاتمہ میں آرہی ہیں اور جس نے ان دونوں کی طرف یا کسی ایک کی طرف کذب یا جہمی ہونے کی نسبت کی ہے تو وہ جھوٹ اور بہتان تراشی میں بہت دور نکل گیا ہے۔ ہاں اگر وہ آدمی یہ کہتا ہے کہ وہ کذاب ہے جو کہتا ہے کہ ایمان نہ بڑھتا ہے اور نہ گھٹتا ہے اس معنی میں جو ابوحنیفہ کہتا ہے۔ جیسا کہ ان میں سے بعض سے گزر چکا ہے یا ہر ایسی چیز جس سے اللہ تعالی کی ذات منزہ ہے، مخلوق کے مشابہ ہونا اور حوادث کا اس میں حلول کرنا یا اس کا حوادث میں حلول کرنا اور ایسے شخص کو وہ بھی کہتا ہے جیسا کہ حشویہ کی اصطلاح ہے تو بےشک ہر وہ شخص کذاب اور جھمی ہے جو اللہ تعالیٰ کو جہمیت کے لوازم سے منزہ سمجھتا ہے۔

أَن كَانَ تَنْزِيَّةَ الْإِلَهِ تَجَهُمَا

فَالْمُؤْمِنُونَ جَمِيعُهُمْ جَهْمِي

اگر اللہ تعالی کو منزہ مانا جہمی بنتا ہے تو مومن سارے کے سارے جہمی ہیں۔

 ورنہ نہ تو ابو حنیفہ اور نہ ہی محمد بن الحسن ان لوگوں میں سے ہیں جو جبر کے قائل ہیں اور نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی نفی کرتے ہیں جیسا کہ اس کا قائل جهم بن صفوان ہے۔ 

اور ان دونوں کے قول سے تو صدق ہی نمایاں تھا ورنہ امت محمدیہ کا نصف بلکہ دو تہائی اکثریت زمانه در زمانہ ان دونوں کی اتباع نہ کرتی۔ اور رہا کسی چیز میں غلطی کرنا تو اس سے سوائے معصوم شخصیتوں (انبیاء کرام علیہم السلام) کے اور کوئی منزہ نہیں ہے۔ پس یہ خبر ابن معین پر جھوٹ ہی باندھا گیا ہے۔ اگرچہ اس کو نصر بن محمد البغدادی جیسے ہزار شخص روایت کرتے رہیں۔ اور عجیب بات ہے کہ جب ہزارہا راوی ابن معین سے یہ روایت کرتے ہیں کہ بے شک الشافعی ثقہ نہیں ہیں تو اس روایت کو اس سے جھوٹی خبر شمار کیا جاتا ہے بخلاف اس کے جب اس سے ایک ہی روایت ابوحنیفہ کے بارہ میں یا اس کے کسی ایک ساتھی کے بارہ میں ہو تو وہ راویت صحیح قرار دی جاتی ہے۔ اگرچہ انتہائی کمزور سند سے روایت کی گئی ہو۔

 ہاں یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ ابو یوسف نے محمد کی بعض ایسے مسائل میں تکذیب کی جو اس کی طرف منسوب تھے اور جب امام محمد کو خبر پہنچی تو کہا ہرگز ایسا نہیں ہے۔ لیکن شیخ کو بھول ہوتی ہے پھر ظاہر ہو گیا کہ بے شک امام محمد کی بات ہی درست تھی۔ اور یہ تکذیب کا انداز ایسا ہے جو استاد اور شاگرد کے درمیان بھی ہو سکتا ہے بغیر اس کے کہ ان میں سے کسی کو عیب لگایا جائے تو اس قسم کی تکذیب سے عقلمند مخالفین خوش نہیں ہوتے[2]۔ اور نہ ہی اس جیسی تکذیب سے خوش ہوتے ہیں جو منصور نے ابوحنیفہ کی اس بات کے جواب میں کہی کہ میں قضاء کے لائق نہیں ہوں اور اس کے باوجود اس (ابو حنیفہ) کو اور اس (امام محمد) کو کذب سے منسوب کرنے والے پائے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ کذب تو ان ہی دو اسباب کی وجہ سے تھا (جن کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے) اللہ تعالی تعصب کا ستیا ناس کرے یہ اپنے صاحب کو کس قدر رسوا کر دیتا ہے[3]۔ 


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا 



[1] ۔ محدث و فقیہ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ کی توثیق کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود مضمون

الفضل الربانی فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹؁ھ) کا مقام و مرتبہ ائمہ و علماء کی نظر میں (مکمل ) -حافظ ظہور احمد الحسینی حفظہ اللہ


[2]۔  ﻗﺮﺃﺕ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻛﺎﻣﻞ اﻟﻘﺎﺿﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻘﺎﺳﻢ، ﻋﻦ ﺑﺸﺮ ﺑﻦ اﻟﻮﻟﻴﺪ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻳﻮﺳﻒ: ﻗﻮﻟﻮا ﻟﻬﺬا اﻟﻜﺬاﺏ، ﻳﻌﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ، ﻫﺬا اﻟﺬﻱ ﻳﺮﻭﻳﻪ ﻋﻨﻰ ﺳﻤﻌﻪ ﻣﻨﻲ؟

 ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻜﺎﺗﺐ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺪ اﻟﻤﺨﺮﻣﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ، ﻗﺎﻝ: ﻭﺟﺪﺕ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ ﺃﺑﻲ ﺑﺨﻂ ﻳﺪﻩ، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺯﻛﺮﻳﺎ، ﻳﻌﻨﻲ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ، ﺳﻤﻌﺖ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺻﺎﺣﺐ اﻟﺮﺃﻱ ﻭﻗﻴﻞ ﻟﻪ: ﻫﺬﻩ اﻟﻜﺘﺐ ﺳﻤﻌﺘﻬﺎ ﻣﻦ ﺃﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ؟ ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ ﻭاﻟﻠﻪ، ﻣﺎ ﺳﻤﻌﺘﻬﺎ ﻣﻨﻪ، ﻭﻟﻜﻨﻲ ﻣﻦ ﺃﻋﻠﻢ اﻟﻨﺎﺱ ﺑﻬﺎ، ﻭﻣﺎ ﺳﻤﻌﺖ ﻣﻦ ﺃﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ ﺇﻻ اﻟﺠﺎﻣﻊ اﻟﺼﻐﻴﺮ

( تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ٢/‏١٧٦ )

ترجمہ :- ابویوسف نے کہا: اس جھوٹے یعنی محمد بن الحسن سے کہو کہ اس نے مجھ سے جو کچھ بیان کیا ہے اس نے مجھ سے سنا ہے؟

 یحییٰ بن معین، کہتے ہیں: میں نے محمد بن الحسن کو کہتے ہوا سنا، جب ان سے پوچھا گیا: کیا تم نے یہ کتابیں ابو یوسف سے سنی ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، خدا کی قسم، میں نے انہیں ان سے نہیں سنا، لیکن میں ان کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والوں میں سے ہوں، اور میں نے ابو یوسف سے سوائے جامع الصغیر کے کچھ نہیں سنا۔


جواب :- یہاں امام ابو یوسف نے غصہ میں کذب کی نسبت امام محمد بن الحسن کی طرف کی ہے لیکن یہاں کذاب سے مراد جھوٹا یا امام ابو یوسف پر جھوٹ باندھنا نہیں ہے بلکہ خطاء ہے یعنی غلطی کو کذب سے تعبیر کیا گیا ہے. کیونکہ اگر ہم دھیان سے امام ابو یوسف کا قول دیکھیں تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ ( امام محمد ) مجھ پر جھوٹ بولتا ہے یا جو بات میں نے بیان نہیں کی یہ اس کی نسبت میری طرف کرتا ہے بلکہ امام ابو یوسف نے کہا کہ اس سے پوچھو جو یہ بات بیان کر رہا ہے وہ مجھ سے براہ راست سنی بھی ہے یا نہیں. کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ خود امام ابو یوسف نے امام ابو حنیفہ کا قول نقل کرا ہے کہ راوی کے لئے جائز نہیں کہ وہ حدیث بیان کرے جو خود اس نے اپنے شیخ سے نہ سنی ہو.

أبي يوسف عن أبي حنيفة أنه قال لا يحل للرجل أن يروي الحديث إلا إذا سمعه من فم المحدث فيحفظه ثم يحدث ( المدخل إلى كتاب الإكيل ص 48 ) 

 اور چونکہ امام ابو یوسف اسے امام ابو حنیفہ سے نقل کرنے کے ساتھ اس اصول کے پابند بھی ہیں اس لئے امام ابو یوسف کو اعتراض ہوا یا یوں کہیں کہ انہوں نے ناگواری کا اظہار کیا کہ جب یہ بات اس نے مجھ سے خود نہیں سنی تو اسے بیان بھی کیوں کیا. لیکن جیسا کہ اگلے قول میں خود امام محمد نے قسم کھاکر کہا کہ میں نے سوائے جامع الصغير کے امام ابو یوسف سے کچھ نہیں سنا لیکن ( دوسرے شاگردوں کی بنسبت ) میں امام ابو یوسف کی ( باتوں اور مسائل) کو سب سے زیادہ جاننے والا ( اور سمجھنے والا) ہوں. تو بات اب یہ آتی ہے جب امام محمد نے امام ابو یوسف سے وہ باتیں خود نہیں سنی تو وہ اس کے سب سے زیادہ جاننے والے کیسے ہوئے. تو ممکن ہے کہ امام محمد نے بازار سے امام ابو یوسف کی کتابیں خرید کر یا امام ابو یوسف کے دیگر شاگردوں سے سیکھ سیکھ کر امام ابو یوسف کی باتیں اور انکے مسائل اور استنباط کے طریقہ سے واقفیت حاصل کر لی ہو. اگر ایسا نہ ہوتا اور واقعی امام محمد جھوٹے ہوتے تو امام ابو یوسف انکو اپنی درس گاہ سے نہ صرف نکال دیتے بلکہ وہ فقہ حنفی کے اصول و ضوابط کے مطابق کتابیں بھی تصنیف نہ کر پاتےان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ یہاں امام ابو یوسف کا غصہ کرنا جھوٹ کی نسبت ان کی طرف کرنے سے متعلق نہ تھا بلکہ اعتراض اس بات پر تھا کہ جب براہ راست وہ باتیں امام ابو یوسف سے سنی نہیں گئیں تو بیان بھی کیوں کی گئیں. اور دھیان یہ بھی رکھنا چاہیے کہ امام ابو یوسف نے یہ نہیں کہا کہ میں نے تو بات اس طرح بیان کی تھی لیکن اس ( امام محمد بن الحسن ) نے اسے غلط طریقے سے بیان کرتے ہوئے مجھ پر جھوٹ بولا. جب جھوٹ بولا ہی نہیں گیا تو اسکا مطلب کذب کی تعبیر خطاء اور غلطی سے کی جائے گی کیونکہ محدثین کا طریقہ ہے کہ وہ کبھی کبھی خطاء یا غلطی کرنے والے کے لئے بھی کذاب کا لفظ بول دیتے ہیں. 

جیسا کہ امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء 153/4  پر فرماتے ہیں کہ ﻓﻤﺤﻤﻮﻝ ﻋﻠﻰ ﺃﻧﻪ ﻋﻨﻰ بالکذب الخطأ  ترجمہ :- اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ انہوں نے 'جھوٹ' سے مراد 'غلطی' لی ہے.  جیسا کہ امام ابن الوزير لکھتے ہیں کہ ﺃﻥ ﻳﻌﻠﻢ ﺃﻥ ﻟﻔﻈﺔ / ((ﻛﺬاﺏ)) ﻗﺪ ﻳﻄﻠﻘﻬﺎ ﻛﺜﻴﺮ ﻣﻦ اﻟﻤﺘﻌﻨﺘﻴﻦ في اﻟﺠﺮﺡ ﻋﻠﻰ ﻣﻦ ﻳﻬﻢ ﻭﻳﺨﻄﻰء ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ, ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﺘﺒﻴﻦ ﺃﻧﻪ ﺗﻌﻤﺪ ﺫﻟﻚ, ﻭﻻ ﺗﺒﻴﻦ ﺃﻥ ﺧﻄﺄﻩ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﺻﻮاﺑﻪ ﻭﻻ ﻣﺜﻠﻪ ( روض الباسم 166/1 ) 

ترجمہ :- یہ بات جان لینی چاہیے کہ 'کذّاب' (یعنی جھوٹا) کا لفظ جرح (راوی پر تنقید) میں بہت سے سخت گیر ناقدین ایسے راویوں پر بھی استعمال کر دیتے ہیں جو صرف وہم یا غلطی کا شکار ہوتے ہیں، حالانکہ یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس نے جان بوجھ کر (جھوٹ) کہا ہو، اور نہ ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کی غلطیاں اس کی درست باتوں سے زیادہ ہوں، یا ان کے برابر ہوں۔

اسی طرح خود غیر مقلد ارشاد الحق اثری اپنی کتاب ضوابط الجرح والتعديل کے صفحہ 58 پر لکھتے ہیں " یہاں کذب کا معنیٰ جھوٹ بولنا نہیں بلکہ خطا کے معنی پر بولا گیا ہے۔ اور یہ کذب کا لفظ نکالیں تاج العروس میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ [أهل الحجاز، يقولون: كذبت بمعنى أخطأت] یعنی : اس کا اطلاق ائمہ کے نزدیک اہل حجاز کے نزدیک خطا اور وہم پر بھی ہوتا ہے "

معلوم ہوا امام ابو یوسف نے امام محمد بن الحسن کی طرف جو کذب کی نسبت کی وہ انکی غلطی کی طرف نشاندہی کرنا تھا کہ انہوں نے جو بات خود مجھ سے نہیں سنی اسے بیان کیوں کیا اور اس کی وضاحت بھی امام محمد نے خود کردی کہ وہ ( دیگر شاگردوں کے مقابلہ ) امام ابو یوسف کی باتوں ( اور مسائل ) کو زیادہ جاننے والے ہیں.

مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 29 : حماد بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: "میں شاید ہی کسی شیخ سے ملا ہوں مگر میں نے اس پر ایسی بات داخل کی جو اس کی حدیث نہ تھی، سوائے هشام بن عروة کے۔"


[3]۔سند کا راوی نصر بن محمد بغدادی مجہول ہے. معلمی کے مطابق یہاں غلطی سے مضر بن محمد بغدادی کے بجائے نصر بن محمد بغدادی ہو گیا ہے تو جواب میں عرض ہے کہ خود غیر مقلدین کے پسندیدہ محقق شیخ دکتور بشار عواد نے 5 یا 6 مخطوطات سامنے رکھ کر جو تاریخ بغداد کی تحقیق کی ہے ،  انہوں نے اس سند کی تحقیق میں یہ نہیں کہا کہ کسی نسخہ میں مضر بن محمد نام لکھا ملا ہے. اسکا مطلب تمام ہی نسخوں میں نصر بن محمد نام درج ہے. غلطی کا امکان ایک یا دو نسخوں میں ممکن ہے تمام ہی نسخوں میں نہیں. اس کے علاوہ مصطفی عبد القادر عطا کی تحقیق سے چھپی تاریخ بغداد میں بھی نصر بن محمد ہی نام لکھا ہے. معلوم ہوا سند میں اصل نام نصر بن محمد ہے اور یہ مجہول راوی ہے. اسکے علاوہ خود یحیی بن معین کے جو معروف شاگرد ہیں چاہے وہ امام دارمی ہوں یا امام دوری، ابن الجنید ہوں یا ابن محرز یا ابن ابی مریم کسی بھی معروف شاگرد نے امام ابن معین کی امام محمد پر کذاب کی جرح نقل نہیں کی. اس لئے معروف شاگردوں کے مقابلہ میں غیر معروف سند یا غیر معروف راوی کا اعتبار نہیں ہوگا. یہ سند بھی ضعیف ثابت ہوئی

 امام یحیی بن معین رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ کی واضح توثیق منقول ہے ، جس میں وہ امام صاحب کی حدیث میں تعریف کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی شان بہت اعلی ہیکہ وہ کذب بیان کریں ، کسی روایت میں فرماتے ہیں کہ محدثین نے امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب پر بہت تشدد کیا اور اسی طرح امام شعبہ سے بھی وہ امام ابو حنیفہ کی تعریف نقل کرتے ہیں  ( تاریخ ابن معین :روایۃ الدوری :جلد ۴:صفحہ ۴۷۴:رقم ٥٣٥٣ ، تاریخ بغداد وذیولہ:جلد ۱۳: صفحہ۴۲۱۔ وسندہ صحیح، الانتقاء لابن عبدالبر: صفحہ ۱۲۷ ، وسندہ حسن ، أخبار ابی حنیفه: صفحہ ٨٦ :واسنادہ حسن  ، سوالات الجنید: ج١ :ص٢٩٥ ، معرفۃ الرجال لابن معین ،روایۃ ابن محرز: ج١:ص٧٩ ، ج١:ص۲۳۰ ،تاریخ بغداد : ج ۱۵ : ص۵۸۰-۵۸۱)

مزید تفصیل کیلئے دیکھیں النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود  

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 2 :امام اعظم ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام ابن معین ؒ (م۲۳۳؁ھ) کی نظر میں

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...