نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 143 : کہ سفیان نے ابوحنیفہ کو جو حدیث میں ثقہ اور صدوق اور فقہ میں مامون کہا ہے تو اس روایت کی سند کمزور ہے کیونکہ اس میں احمد بن عطیہ ہے۔


 اعتراض نمبر 143 : 

کہ سفیان نے ابوحنیفہ کو جو حدیث میں ثقہ اور صدوق اور فقہ میں مامون کہا ہے تو اس روایت کی سند کمزور ہے کیونکہ اس میں احمد بن عطیہ ہے۔


الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ میں نے تاریخ الخطیب کے مطبوعہ دونوں مصری نسخوں میں 353 کے حاشیہ میں احمد بن الصلت کے بارہ میں بیان کر دیا ہے۔

 اور وہ ابو العباس احمد بن محمد بن المغلس الحمانی ہے جو کہ اس جبارة بن المغلس کا بھتیجا ہے جو ابن ماجہ کا شیخ ہے۔

 اس کا ذکر کبھی احمد بن محمد الحمانی کے نام سے اور کبھی احمد بن الصلت کے نام سے اور کبھی احمد بن عطیہ کے نام سے کیا جاتا ہے۔

 اور یہ متکلم فیہ راوی ہے۔ 

اور ہمیں ابو حنیفہ کے مناقب میں اس کی روایات کی طرف توجہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس ایسی سندیں ہیں جن کے راویوں پر کوئی کلام نہیں ہے جو بہت سی روایات اس معنی میں ہیں جو الحمانی نے روایت کی ہے۔  لیکن ضروری ہے کہ مخالف سے اس کی کاروائی میں اس کے درجہ کی بحث کریں اور احمد بن محمد الحمانی پر ذہبی نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

 اس کی اس حدیث میں جو اس نے ابو حنیفہ کے طریق سے ابن جزء کی بیان کی ہے۔ اس اعتبار سے کہ بے شک ابن جزء نے مصر میں 86ء میں وفات پائی۔ الخ

 تو اس کو ابوحنیفہ نے نہیں پایا۔

 اور ذہبی نے غفلت سے کام لیا اس لیے کہ پہلے زمانہ کے رجال کی پیدائش اور وفات کی تاریخوں میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔

 کیونکہ ان کا دور اس سے بہت پہلے کا ہے جب سے وفات کے متعلق کتابیں لکھی جانے لگی ہیں۔

 تو ناقلین میں سے کسی ایک کی روایت پر بہت سے لوگوں کی وفات کے بارہ میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جا سکتا اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ جو مشہور صحابی ہیں ان کی وفات کے بارہ میں بھی اختلاف ہے۔18ھ سے لے کر 32ھ تک کے اقوال پائے جاتے ہیں اور ذھبی مصر ہیں کہ بے شک اس کی وفات 22ھ میں ہے۔ جو اس کی تمام کتابوں میں ہے حالانکہ بے شک وہ تو 32ھ تک زندہ رہے ہیں اور وہ حضرت عثمان کے زمانہ میں قرآن کریم جمع کرنے والے تھے جیسا کہ طبقات ابن سعد کی روایات سے ظاہر ہے۔ 

اور کہاں مقام حضرت ابن ابی کعب رضی اللہ عنہ کا اور کہاں ابن جزء کا کہ جب ان کے بارہ میں قطعیت سے روایت ثابت نہیں تو ابن جزء کے بارہ میں کیسے ثابت ہو سکتی ہے۔  یہاں تک کہ قطعیت کے ساتھ وفات مان لی جائے اس روایت کی وجہ سے جو اس نے صرف ابن یونس سے کی ہے۔ اور بے شک الحسن بن علی الغزنوی نے کہا کہ اس کی وفات 99ھ ہے جیسا کہ ملا علی قاری کی شرح المسند میں ہے۔ اور شاید اس کی وفات کے بارہ  میں بات درست ہو۔ علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کرام کی تعداد موجود تھی حالانکہ جو کتابیں صحابہ کرام کے

بارہ میں لکھی گئی ہیں ان میں اس تعداد کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اور یہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہوں کہ اتفاق سے ان کے نام اور ان کے راویوں کے نام اور نسب ایک جیسے ہوں۔ خصوصا ایسے لوگ جو روایت کم کرنے والے ہیں تو اعتماد روایت پر ہوگا۔ علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ بے شک ابن الصلت اس حدیث کو ابو حنیفہ کے طریق سے روایت کرنے میں منفرد نہیں ہے بلکہ اس کو ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم ص 45 ج 1 میں ایسی سند سے نقل کیا ہے جس میں ابن الصلت نہیں ہے تو اس سے ثابت ہو گیا کہ ابن الصلت اس روایت میں منفرد نہیں ہے۔تو ضروری ہے کہ ذھبی کے غصہ کا جب سبب باقی نہیں رہا تو اس کا غصہ بھی باقی نہ رہے۔  لیکن ان سے ممکن نہیں کہ وہ مسامحت برتیں اس لیے کہ جو حدیث ابو حنیفہ کے طریق سے ذکر کی گئی ہے اس روایت کی وجہ سے ثابت ہوتا ہے کہ بے شک ابوحنیفہ تابعین میں سے ہیں۔ یہاں تک کہ جن لوگوں کے نزدیک محض ہم زمانہ ہونا یا صحابی کو دیکھ لینا تابعی ہونے کے لیے کافی نہیں تو ان کو بھی اس روایت کی وجہ سے ابو حنیفہ کو تابعی ماننا پڑتا ہے کیونکہ ان کی صحابی سے براہ راست روایت بھی ثابت ہو گئی۔ 

اور یہ ایسی چیز ہے جس میں مسامحت برتنا ان مخالفین کے لیے ممکن نہیں ہے۔ 

اس صورت میں تو ابن عبدالبر سے بھی درگزر کا معاملہ نہ ہو سکے گا اس لیے کہ بےشک اس نے اپنی سند کے ساتھ روایت پیش کی ہے کہ ابوحنیفہ کا ابن جزء سے سماع ثابت ہے۔ اپنی اس کتاب میں جس کا ذکر ابھی ہوا اور وہ روایت ابن الصلت کے طریق سے بھی نہیں ہے۔ 

اور اس نے صراحت کی ہے کہ ابو حنیفہ نے حضرت انس اور حضرت عبد اللہ بن جزء الزبیدی کو دیکھا ہے اور یہ روایت ابن سعد سے اس نے لی ہے۔ پھر بےشک خطیب نے 208 ج 4 میں ابن الصلت کو کمزور ثابت کرنے کی لمبی چوڑی بحث کی ہے کہ بےشک وہ حضرت انس سے ابو حنیفہ کی روایت میں منفرد ہے حالانکہ حضرت انس کی وفات کے بارہ میں جو اکثر روایات ہیں اس وقت ابوحنیفہ کی عمر محدثین کی متحمل حدیث کے لیے مقرر کی گئی عمر سے کہیں زیادہ تھی اور یہ بھی کہ حضرت انس بالاتفاق اپنی وفات سے پہلے کوفہ آگئے تھے۔ اور اس وجہ سے بھی کہ روایت کی گئی ہے کہ محمد بن المثنی نے ابن عیینہ سے روایت کی ہے کہ علماء چار ہیں۔ حضرت ابن عباس اپنے زمانہ میں۔ اور الشعبی اپنے زمانہ میں۔ اور ابوحنیفہ اپنے زمانہ میں۔ اور ثوری اپنے زمانہ میں۔اور خطیب نے اس بات کو مناسب ہی نہ سمجھا کہ ابن عیینہ نے ابوحنیفہ کی جو تعریف کی ہے اس کا ذکر کرنے بلکہ اس نے تو مشہور کیا ہے کہ ابن عیینہ نے ابو حنیفہ کے خلاف اقدام کیا ہے اور وہ خطیب کی نظر میں اس کی محفوظ روایت ہے کہ بے شک اس نے کہا کہ اسلام میں کوئی بچہ ایسا پیدا نہیں ہوا جو ابوحنیفہ سے زیادہ اسلام کے لیے نقصان دہ ہو۔ اور اس کو احمد بن محمد المنکدری۔ محمد بن ابی عمر سفیان کی سند سے پھر ابن درستویہ سے محمد بن ابی عمر عن سفیان کی سند سے نقل کیا۔ پھر اس کو محفوظ روایت شمار کیا۔

 حالانکہ بے شک محمد بن ابی عمر جو ہے وہ العدنی ہے اور اس کے بارہ میں ابو حاتم نے کہا کہ اس پر غفلت طاری تھی۔ وہ ابن عیینہ سے موضوع حدیث بیان کرتا ہے۔ 

اور رہا المنکدری تو اس کی بہت سی روایات غریب اور منفرد ہوتی ہیں۔ الادریسی نے کہا کہ اس کی حدیث میں منالیر اور عجائب اور افرادات واقع ہیں۔ اور ابن درستویہ کا حال تو معلوم ہی ہے۔ 

تو کیا اس جیسی دو سندوں کے ساتھ خبر محفوظ ہو سکتی ہے؟ 

اور پہلے ہم نے بیان کر دیا کہ ابن عیینہ تو ابوحنیفہ کی تعریف کرنے والے حضرات میں شامل ہیں اور وہ ایسی تعریف کرتے ہیں جو خوشبو پھیلانے والی ہے۔ حالانکہ اس کے خلاف جو روایات مخالفین کرتے ہیں وہ انتہائی درجہ کی کمزور ہیں[1]۔ 

پس گویا کہ ابن الصلت نے خطیب کی نظر میں کفر کا ارتکاب کر دیا کہ اس نے اپنی روایت میں ابوحنیفہ کا ذکر ان تین علماء کے ساتھ کر دیا اور ان کے ساتھ اس کو شامل کر دیا اور یہ تو محض طرفداری ہے۔ ابو حنیفہ کی شخصیت تو وہ ہے کہ دنیا کے کناروں میں اس کا علم بھرا ہوا ہے جس کے مطابق امت محمدیہ کا کم از کم نصف طبقہ عمل کرتا ہے جیسا کہ ابن الاثیر نے جامع الاصول میں کہا ہے۔

 اگر اس کے علم کے مطابق عمل کرنے والے امت کے دو تہائی لوگ نہ ہوتے جیسا کہ ملا علی قاری نے شرح مشکوۃ میں کہا ہے۔ 

اول زمانہ سے لے کر ہمارے اس زمانہ تک تو اس صورت میں تو اس صورت میں جب اس کا ذکر ان تین علماء کے ساتھ کیا جاتا تو یہ احمد بن الصلت کے کذب پر سب سے زیادہ واضح حجت ہوتی۔

 اور یہ ایسی بات ہے کہ اس کا تکلم صرف وہی کر سکتا ہے جس کا دل ایسی مرض میں مبتلا ہو جس کا کوئی علاج نہیں۔ 

تو ہو سکتا ہے کہ ان حضرات کے نزدیک یحییٰ بن معین بھی کاذبین میں سے ہو کیونکہ اس نے ابوحنیفہ کا ذکر فقہاء اربعہ میں کیا ہے۔جیسا کہ یہ روایت الصیمری نے کی ہے۔ اور وہ خطیب کے ہاں ثقہ ہے۔ اور اس نے ایسی سند سے روایت کی ہے جس میں احمد بن محمد الحمانی ہے۔ اس نے عمر بن ابراهیم مکرم محمد بن علی قاسم بن المقرئ الحسین بن فہم وغیرہما کی سند نقل کر کے کہا کہ ان حضرات نے کہا کہ ہم نے یحیٰی بن معین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ فقہاء چار ہیں۔ 

ابوحنیفہ ۔ سفیان ۔ مالک اور الاوزاعی ۔ الخ

بلکہ زمانہ در زمانہ گزرنے کے باوجود ساری کی ساری امت ابوحنیفہ کو ائمہ متبوعین میں سے پہلے نمبر پر اعتبار کرتی ہے اور اس نے اس کو امام اعظم کا لقب دیا ہے جبکہ خطیب کا سینہ اس سے تنگ ہے۔

 تو کیا خطیب اور اس کے دم چھلوں کے علاوہ باقی ساری کی ساری امت جھوٹی اور خطا کار ہے۔

 بلکہ خود خطیب بھی اس کی زد میں آتا ہے اس لیے کہ اس نے ائمہ سے کتنی ہی روایات جید اسناد سے نقل کی ہیں اپنی اس کتاب کے ص 344 اور ص 345 میں کہ بےشک ابوحنیفہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم تھے۔

 اور ان استاد کے راویوں میں ابن الصلت نہیں ہے تو اگر وہ ابوحنیفہ کی حضرت انس سے حدیث میں منفرد ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے جبکہ محمد بن سعد الكاتب وغیرہ حفاظ سے ثابت ہو چکا کہ ابوحنیفہ نے حضرت انس کو دیکھا ہے۔اور ان حفاظ کا ذکر کتاب کی ابتداء میں پہلے ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ یہ روایت ماننے والوں میں الدار قطنی بھی ہیں۔ 

حالانکہ وہ ایسا شخص ہے جو یہ کہنا جائز سمجھتا ہے کہ اسماعیل بن حماد بن ابي حنيفة ثلاثتهم ضعفاء کہ بیٹا باپ اور دادا تینوں ضعیف ہیں۔ اور وہ محمد بن عبد اللہ الانصاری کا قول کہاں لے جائے گا جو اس نے اسماعیل کے بارہ میں کہا ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب کے زمانہ سے لے کر اس زمانہ تک کوئی ایسا قاضی نہیں بنا جو اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ سے زیادہ عالم ہو۔ یعنی بصرہ میں۔ 

اور وہ محمد بن محمد العطار الحافظ کو کہاں لے جائے گا جس نے حماد بن ابی حنیفہ کو ان اکابرین میں شمار کیا ہے جو امام مالک سے روایت کرتے ہیں۔ اور وہ ان لوگوں کے بارہ میں کیا کہیں گے جنہوں نے ابو حنیفہ کی تعریف کی ہے جو ابن الدخیل اور ابن ابی العوام کی کتابوں اور ابن عبدالبر کی الانتقاء میں مذکور ہیں۔

 اور الدار قطنی تو وہ شخص ہے جس نے ابو یوسف کے بارہ میں نامعقول بات کی ہے۔ اس نے کہا کہ وہ اندھوں میں کانا راجہ کا مصداق تھا حالانکہ وہ خود مسکین اندھا کانوں کے درمیان ہے۔

 کیونکہ اس نے اعتقادی مسائل میں کج روی اختیار کی اور احادیث پر کلام کرنے میں خواہش کے پیچھے چلا اور اضطراب کیا جیسا کہ آگے اس کی بحث آئے گی جہاں ابو یوسف کے بارہ میں کلام ہوا ہے۔ اگر خطیب نے ابن عدی پر اعتماد کرتے ہوئے ابن الصلت کے خلاف اس کی انصاف سے ہٹی ہوئی بات کو لیا ہے جو اس نے اپنی کتاب کامل میں کی ہے تو خطیب کو چاہیے کہ وہ اس کی انصاف سے ہٹی ہوئی ان باتوں کو بھی لے جو اس نے بہت سے صحابہ اور تابعین اور ان ائمہ کے خلاف کی ہیں جو اس فن والوں کے ہاں ثقہ ہیں۔

 مگر میں خیال نہیں کرتا کہ وہ ایسا کر سکے۔ (تو جب یہاں ان باتوں کو نہیں لیتا تو امام 

ابو حنیفہ کے بارہ میں اس پر اعتماد کر کے طعن کیوں نقل کرتا ہے؟) اور احمد بن الصلت تو وہ ہے کہ اس کے بارہ میں ابن ابی خیثمہ نے اپنے بیٹے عبد اللہ سے کہا کہ اے بیٹا! اس شیخ سے لکھا کر کیونکہ یہ ہمارے ساتھ مجلس میں ستر سال تک لکھا کرتا تھا۔ 

اور یہ ایسی چیز ہے جو خطیب کو بہت زیادہ غصہ دلاتی ہے اور یہ چیز اس کو اس سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے بلا فائدہ ہر سواری پر سوار ہو جانے پر ابھارتی ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ 

اور اس کی سند عالی تھی اور اس کے شیوخ میں کثرت ہے۔ اور بے شک اس نے اس قدر لوگوں سے علم حاصل کیا کہ ان کی کثرت شمار نہیں کی جاسکتی اور ان میں بڑے بڑے جلیل القدر حضرات بھی ہیں لیکن اس آدمی (احمد بن الصلت) کا گناہ یہ ہے کہ اس نے ابوحنیفہ کے مناقب میں کتاب لکھی ہے۔ اس وقت سے ابوحنیفہ کے مخالفین کی خواہش کر رہے ہیں کہ الابار کے لیے فضاء صاف کر دیں جس کو انہوں نے ابوحنیفہ کے مطاعن پر جھوٹ اور بہتان تراشی پر مشتمل کتابیں لکھنے پر ابھارا تو انہوں نے الحمانی پر یہ ناانصافی کی تاکہ اس کی روایات ساقط ہو جائیں۔ بلکہ آپ خطیب کو پائیں گے کہ اس نے خود احمد بن عطیہ کے بارہ میں اپنی کتاب میں کئی جگہ طعن کیا ہے۔ پھر ابوحنیفہ کے مناقب میں اس کے طریق سے روایات بیان کیں حالانکہ وہ دوسرے طریقوں سے بھی مروی ہیں اور یہ کاروائی صرف اس لیے کی تا کہ پڑھنے والوں کے دلوں میں یہ شک ڈال دے کہ یہ روایات جھوٹی ہیں اور یہ انتہائی درجہ کی خباثت ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ جب کوئی طعن کرنے والا کسی آدمی کے بارہ میں طعن کرتا ہے تو آپ ایسے راویوں کے گروہ پائیں گے جو اس کے پیچھے دوڑتے جاتے ہیں طعن کرنے والے کی آواز بازگشت کو دہراتے جاتے ہیں خواہ اس کے طعن کی ذرا بھی قیمت نہ ہو۔ اور ان کے لیے قیامت کے دن ایسا خوفناک مقام ہو گا کہ اس پر رشک نہ کیے جائیں گے۔ (یعنی کوئی بھی اس مقام میں ٹھہرنے کی خواہش نہ کرے گا۔)[2]۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]۔اعتراض نمبر 36 : امام سفيان بن عيينة رحمه الله سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 3 :امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام سفیان بن عیینہ ؒ (م ۱۹۸؁ھ) کی نظر میں


[2]۔تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر24 : امام ابو حنیفہؒ کا کمالِ اخلاق: ناقد کو بھی معزز جانا - امام ابو حنیفہ اور امام سفیان ثوری رحمھم اللہ


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 25 : امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے طرزِ عمل سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت کا روشن ثبوت اعتراض سے اعتراف تک: امام سفیان ثوریؒ کا امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں رویہ


تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...