کتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء از محدث أبو نعيم الأصبهاني (٤٣٠هـ) میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
کتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء از محدث أبو نعيم الأصبهاني (٤٣٠هـ)
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اس پوسٹ میں ہم امام محدث أبو نعيم الأصبهاني (٤٣٠هـ) کی کتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء میں موجود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں اعتراضات کا جائزہ لیں گے۔
ہمارا طریقہ کار یہ ہوگا کہ ہم پہلے روایت کی سند پیش کریں گے، ان اسانید میں جو راوی معتبر نہ ہوا ضعیف، متروک، مجہول، منکر الحدیث، کذاب، سیء الحفظ، مختلط، مضطرب ہوا، اسے سرخ یعنی لال رنگ سے ظاہر کریں گے۔، تاکہ قارئین آسانی سے ان کی حیثیت کو پہچان سکیں۔ ہر پوسٹ کے آخر میں اس کا تفصیلی جواب بھی فراہم کیا جائے گا، جس کا لنک دیا جائے گا۔ اس تفصیلی جواب میں:
روایت کا ترجمہ
ضعیف راویوں کے حوالے
- اور متعلقہ اسکین شامل ہوں گے۔لہٰذا اس تفصیل کو یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
حدثنا أحمد بن إسحاق ثنا عبد الرحمن بن محمد بن سلم ثنا عبد الرحمن ابن عمر قال: سمعت عبد الرحمن بن مهدي، وسأله رجل فقال: يا أبا سعيد بلغني أنك قلت: ما لك أعلم من أبي حنيفة.
قال: ما قلت هذا ولكن أقول كان أعلم من أستاذ أبي حنيفة - يعني حماد بن أبي سليمان - قال: وسمعت عبد الرحمن ابن مهدي وذكر أبو حنيفة فقال: ﴿(ليحملوا أوزارهم كاملة يوم القيامة ومن أوزار الذين يضلونهم بغير علم ألا ساء ما يزرون)﴾، قال: وسمعت عبد الرحمن يقول: ما كان يدري أبو حنيفة ما العلم.
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة ، ج 9 ص 10 )
جواب : اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 2 :
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ قُلْتُ: نَأْخُذُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، مَا يَأْثُرُهُ، وَمَا وَافَقَ الْحَقَّ؟ قَالَ: «لَا وَلَا كَرَامَةَ. جَاءَ إِلَى الْإِسْلَامِ يَنْقُضُهُ عُرْوَةً عُرْوَةً، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ شَيْءٌ»
احمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں: ہم سے عبدالرحمٰن بن محمد نے روایت کی، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عمر نے کہا: میں نے عبدالرحمٰن بن مہدی سے پوچھا: "کیا ہم امام ابو حنیفہ سے وہ آثار (روایات) لیں جو وہ نقل کرتے ہیں، اور وہ باتیں جو حق کے موافق ہوں؟"
انہوں نے جواب دیا: "نہیں، ہرگز نہیں! انہوں نے اسلام کو گویا گرہ در گرہ کھولنے کی کوشش کی ہے، ان سے کوئی چیز قبول نہیں کی جائے گی۔"
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة ، ج 9 ص 10 )
الجواب : اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 4 :
امام أبو نعيم الأصبهاني (٤٣٠هـ) اپنی کتاب حلية الأولياء میں نقل کرتے ہیں کہ امام حمّاد بن زید نے امام ابو حنیفہ کو بدعت کی طرف منسوب کیا اور کہا کہ انہوں نے سنتوں کو اپنے قیاس کے ذریعے باطل کیا ہوا ہے۔
حدثنا سليمان بن أحمد ، ثنا طالب بن فسره الأدنى ، ثنا محمد بن عيسى بن الطباع ، حدثني أخي إسحاق بن عيسى ، قال : كنا عند حماد بن زيد ومعنا وهب بن جرير ، فذكرنا شيئا من قول أبي حنيفة ، قال حماد بن زيد : اسكت ولا يزال الرجل منكم داحضا في بوله يذكر أهل البدع في مجلس عشيرته حتى يسقط من أعينهم ، ثم أقبل علينا حماد ، فقال : أتدرون ما كان أبو حنيفة ، إنما كان يخاصم في الإرجاء فلما تخوف على مهجته تكلم في الرأي ، فقاس سنن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعضها ببعض ليبطلها ، وسنن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تقاس .
اسحاق بن عیسیٰ نے کہا: ہم امام حماد بن زید کے پاس تھے اور ہمارے ساتھ وہب بن جریر بھی تھے۔ ہم نے امام ابو حنیفہ کے کچھ اقوال کا ذکر کیا، تو حماد بن زید نے کہا: "چپ رہو! تم میں سے آدمی اپنے پیشاب میں لت پت رہتا ہے، (پھر) اہلِ بدعت کا ذکر اپنی قوم کی مجلس میں کرتا ہے یہاں تک کہ وہ ان کی نظروں سے گر جاتا ہے۔"
پھر حماد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: "جانتے ہو ابو حنیفہ کیا تھا؟ وہ ابتدا میں مسئلہ ارجاء میں جھگڑتا تھا، پھر جب اپنی جان کا خطرہ محسوس کیا تو رائے کی باتیں کرنے لگا، اور اس نے نبی ﷺ کی سنتوں کو قیاس کرنے لگا تاکہ انہیں باطل کرے، حالانکہ نبی ﷺ کی سنتوں پرقیاس نہیں کیا جا سکتا۔
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 6/259)
اعتراض نمبر 5 :
امام أبو نعيم الأصبهاني (٤٣٠هـ) اپنی کتاب حلية الأولياء میں نقل کرتے ہیں کہ امام حماد بن زید ، امام ابو حنیفہ کی وفات پر خوش ہو کر شکریہ ادا کرتے ہیں کہ الحمد اللہ ! زمین صاف ہوئی۔
حدثنا سليمان بن احمد ثنا عبدالله بن احمد بن حنبل حدثني منصور بن أبي مزاحم قال سمعت أبا علي العذري يقول لحماد بن زيد مات أبو حنيفة قال الحمد لله الذي كنس بطن الارض به
امام حماد بن زید ، امام ابو حنیفہ کی وفات پر خوش ہو کر شکریہ ادا کرتے ہیں کہ الحمد اللہ ! زمین صاف ہوئی۔ (حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 6/259)
اعتراض نمبر 6 :
امام أبو نعيم الأصبهاني (٤٣٠هـ) اپنی کتاب حلية الأولياء میں نقل کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: تم لوگوں پر تعجب ہے! تم نے تین راوی چھوڑ دیے جو براہِ راست نبی ﷺ تک پہنچتے ہیں، اور تین فقہاء کی طرف جھک گئے ہو۔
حدثنا سليمان ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل قال: كتب إلي الفتح بن خشرف يذكر: أنه سمع موسى بن حزام الترمذي - بترمذ - يقول: كنت أختلف إلى أبى سليمان الجورجانى في كتب محمد بن الحسن فاستقبلني أحمد بن حنبل عند الجسر فقال لي: إلى أين؟ فقلت: إلى أبي سليمان. فقال: العجب منكم، تركتم إلى النبي ﷺ ثلاثة وأقبلتم على ثلاثة، إلى أبي حنيفة فقلت كيف يا أبا عبد الله؟ قال يزيد بن هارون - بواسط - يقول: حدثنا حميد عن أنس قال قال رسول الله ﷺ وهذا يقول: حدثنا محمد بن الحسن عن يعقوب عن أبي حنيفة قال: موسى بن حزام: فوقع في قلبي قوله، فاكتريت زورقا من ساعتي فانحدرت إلى واسط فسمعت من يزيد بن هارون.
سلیمان بن احمد طبرانی نے ہم سے بیان کیا، کہا: ہم سے عبداللہ بن احمد بن حنبل نے بیان کیا، کہ فتح بن خشرف نے مجھے خط لکھ کر ذکر کیا کہ انہوں نے موسیٰ بن حزام الترمدی کو ترمذ میں یہ کہتے ہوئے سنا: “میں ابوسلیمان الجورجانی کے پاس، محمد بن الحسن کی کتب پڑھنے کے لیے آیا جایا کرتا تھا۔ ایک دن احمد بن حنبلؒ مجھے پل کے پاس ملے، تو انہوں نے پوچھا: ‘کہاں جا رہے ہو؟’ میں نے کہا: ابوسلیمان کے پاس جا رہا ہوں۔ تو امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: ‘تم لوگوں پر تعجب ہے! تم نے نبی ﷺ تک پہنچنے والے تین (محدثین) کو چھوڑ دیا، اور ان تین (فقہاء) کی طرف مائل ہو گئے ہو، جبکہ اس (ابوسلیمان) کا سلسلہ ابو حنیفہ تک پہنچتا ہے!’ میں نے پوچھا: کیسے اے ابا عبداللہ؟ انہوں نے فرمایا: “یزید بن ہارون — جو واسط میں ہے — وہ یوں کہتا ہے: ہم سے حمید نے روایت کیا، انہوں نے انس (رضی اللہ عنہ) سے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا… اور یہ (ابوسلیمان) کہتا ہے: ہم سے محمد بن الحسن نے روایت کیا، انہوں نے یعقوب سے، اور انہوں نے ابو حنیفہ سے…” (موسیٰ بن حزام کہتے ہیں:) “پس امام احمد کے یہ الفاظ میرے دل میں اتر گئے، چنانچہ میں نے اسی وقت ایک کشتی کرایے پر لی اور فوراً واسط کی طرف روانہ ہوا، اور جا کر یزید بن ہارون سے حدیث سنی۔”
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة ٩/١٨٥ ، الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي ١/٣١٨ )
اعتراض نمبر 7 :
امام أبو نعيم الأصبهاني (٤٣٠هـ) اپنی کتاب حلية الأولياء میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق کے درمیان ایک مناظرہ ہوا جس میں ہر پہلو سے امام جعفر صادق غالب آئے
حدثنا عبد الله بن محمد ثنا الحسن بن محمد ثنا سعيد بن عنبسة ثنا عمرو ابن جميع. قال: دخلت على جعفر بن محمد أنا وابن أبي ليلى وأبو حنيفة.
وحدثنا محمد بن علي بن حبيش حدثنا أحمد بن زنجويه حدثنا هشام بن عمار حدثنا محمد بن عبد الله القرشي بمصر ثنا عبد الله بن شبرمة.
قال: دخلت أنا وأبو حنيفة على جعفر بن محمد. فقال لابن أبي ليلى: من هذا معك؟ قال: هذا رجل له بصر ونفاذ في أمر الدين. قال: لعله يقيس أمر الدين برأيه. قال:
نعم! قال فقال جعفر لأبي حنيفة: ما اسمك؟ قال: نعمان. قال يا نعمان هل قست رأسك بعد؟ قال: كيف أقيس رأسي؟! قال: ما أراك تحسن شيئا، هل علمت ما الملوحة في العينين، والمرارة في الأذنين، والحرارة في المنخرين والعذوبة في الشفتين. قال: لا! قال: ما أراك تحسن شيئا، قال: فهل علمت كلمة أولها كفر وآخرها إيمان. فقال: ابن أبي ليلى: يا ابن رسول الله أخبرنا بهذه الأشياء التي سألته عنها. فقال: أخبرني أبي عن جدي أن رسول الله ﷺ. قال: «إن الله تعالى بمنه وفضله جعل لابن آدم الملوحة في العينين لأنهما شحمتان ولولا ذلك لذابتا، وإن الله تعالى بمنه وفضله ورحمته على ابن آدم جعل المرارة في الأذنين حجابا من الدواب فإن دخلت الرأس دابة والتمست إلى الدماغ فاذا ذاقت المررة التمست الخروج، وإن الله تعالى بمنه وفضله ورحمته على ابن آدم جعل الحرارة في المنخرين يستنشق بهما الريح ولولا ذلك لأنتن الدماغ، وإن الله تعالى بمنه وكرمه ورحمته لابن آدم جعل العذوبة في الشفتين يجد بهما استطعام كل شيء ويسمع الناس بها حلاوة منطقه». قال: فأخبرني عن الكلمة التي أولها كفر وآخرها إيمان.
فقال: إذا قال العبد لا إله فقد كفر فإذا قال إلا الله فهو إيمان. ثم أقبل على أبي حنيفة فقال: يا نعمان حدثني أبي عن جدي أن رسول الله ﷺ قال: «أول من قاس أمر الدين برأيه إبليس. قال الله تعالى له اسجد لآدم فقال: ﴿(أنا خير منه خلقتني من نار وخلقته من طين)﴾ فمن قاس الدين برأيه قرنه الله تعالى يوم القيامة بإبليس لأنه اتبعه بالقياس». زاد ابن شبرمة في حديثه.
ثم قال جعفر: أيهما أعظم قتل النفس أو الزنا؟ قال: قتل النفس. قال: فإن الله ﷿ قبل في قتل النفس شاهدين ولم يقبل في الزنا إلا أربعة. ثم قال:
أيهما أعظم الصلاة أم الصوم؟ قال: الصلاة. قال: فما بال الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاة. فكيف ويحك يقوم لك قياسك! اتق الله ولا تقس الدين برأيك.
عبداللہ بن محمد نے ہمیں بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن عنبسہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عمرو بن جُمیع نے بیان کیا: انہوں نے کہا: میں جعفر بن محمد (امام جعفر صادقؒ) کی خدمت میں داخل ہوا، میں اور ابنِ ابی لیلیٰ اور ابو حنیفہ (امام اعظمؒ)۔
اور محمد بن علی بن حُبیش نے ہمیں بیان کیا، کہا: ہم سے احمد بن زنجویہ نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے ہشام بن عمار نے حدیث بیان کی، کہا کہ مصر میں محمد بن عبداللہ قرشی نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے عبداللہ بن شُبرَمہ نے روایت کیا: انہوں نے کہا: میں اور ابو حنیفہ جعفر بن محمد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو امام جعفر نے ابنِ ابی لیلیٰ سے پوچھا: یہ تمہارے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ ایک ایسے شخص ہیں جو دین کے معاملات میں بصیرت اور گہری سمجھ رکھتے ہیں۔ امام جعفرؒ نے فرمایا: کہیں یہ دین کے معاملات کو اپنی رائے سے قیاس تو نہیں کرتے؟ ابنِ ابی لیلیٰ نے کہا: جی! کرتے ہیں۔ تو امام جعفرؒ نے ابو حنیفہ سے فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا: نعمان۔ امام جعفر نے فرمایا: اے نعمان! کیا تم نے کبھی اپنے سر کا قیاس کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں اپنے سر کا قیاس کیسے کروں؟ یہ سن کر امام جعفرؒ نے فرمایا: مجھے نہیں لگتا کہ تم کسی چیز کی حقیقت جانتے ہو۔ پھر پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ آنکھوں میں نمکیات کیوں ہیں؟ کانوں میں کڑواہٹ کیوں ہے؟ نتھنوں میں حرارت کیوں ہے؟ اور ہونٹوں میں مٹھاس کیوں ہے؟ ابو حنیفہؒ نے کہا: نہیں۔ تو امام جعفرؒ نے فرمایا: میں تو تمہیں کسی چیز کا جاننے والا نہیں پاتا! ابنِ ابی لیلیٰ نے عرض کیا: اے رسول اللہ ﷺ کے فرزند! ہمیں ان چیزوں کے بارے میں بتا دیجیے جن کے متعلق آپ نے ان سے سوال کیا۔ تو امام جعفرؒ نے فرمایا: میرے والد نے میرے دادا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و احسان سے انسان کی آنکھوں میں نمکینی رکھی ہے، کیونکہ آنکھیں گوشت کے ڈھیر (شحم) ہیں۔ اگر نمکینی نہ ہوتی تو یہ پگھل جاتیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم سے انسان کے کانوں میں کڑواہٹ رکھی، تاکہ وہ کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رہیں۔ اگر کوئی جاندار سر کے اندر داخل ہونے لگے اور دماغ تک پہنچنے کا ارادہ کرے تو جب اسے وہ کڑواہٹ محسوس ہوتی ہے تو فوراً نکل بھاگتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انسان کے نتھنوں میں حرارت رکھی ہے، جس کے ذریعے وہ ہوا سونگھتا ہے۔ اگر یہ حرارت نہ ہوتی تو دماغ سڑ جاتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انسان کے ہونٹوں میں مٹھاس رکھی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعہ چیزوں کا ذائقہ محسوس کرے اور گفتگو کی مٹھاس بھی انہی سے ملتی ہے۔" پھر ابنِ ابی لیلیٰ نے پوچھا: اس کلمے کے بارے میں بھی بتائیں جس کا پہلا حصہ کفر اور آخری حصہ ایمان ہے؟ تو امام جعفرؒ نے فرمایا: جب بندہ صرف "لا إله" کہے تو اس نے کفر کی بات کی، اور جب "إلا الله" کہہ دے تو یہ ایمان ہے۔ پھر امام جعفرؒ ابو حنیفہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میرے والد نے میرے دادا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "سب سے پہلا جس نے دین کے معاملے میں اپنی رائے سے قیاس کیا وہ ابلیس تھا۔ اللہ نے اسے حکم دیا: آدم کو سجدہ کرو۔ تو اس نے کہا: ﴿میں اس سے بہتر ہوں؛ آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے﴾ پس جس نے دین کو اپنی رائے سے قیاس کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ابلیس کے ساتھ کھڑا کرے گا، کیونکہ اس نے بھی قیاس ہی کی پیروی کی تھی۔" عبداللہ بن شبرمہ نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا: پھر امام جعفرؒ نے پوچھا: قتلِ نفس بڑا گناہ ہے یا زنا؟ ابو حنیفہؒ نے کہا: قتلِ نفس۔ امام جعفر نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے قتلِ نفس میں دو گواہوں کو کافی قرار دیا اور زنا میں چار گواہوں کا مطالبہ کیا۔ پھر پوچھا: نماز عظیم ہے یا روزہ؟ انہوں نے کہا: نماز۔ امام جعفرؒ نے فرمایا: تو پھر حیض والی عورت روزہ قضا کرتی ہے، نماز قضا کیوں نہیں کرتی؟ آخر میں فرمایا: "تیرے قیاس کا یہی انجام ہے! خدا سے ڈر اور دین کو اپنی رائے پر قیاس نہ کر!"
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 6/259)
اعتراض نمبر 8 :
امام أبو نعيم الأصبهاني (٤٣٠هـ) اپنی کتاب حلية الأولياء میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت فضیل بن عیاضؒ نے بعض اصحابِ امام ابو حنیفہؒ پر تنقید فرمائی ہے۔
حدثنا سليمان بن أحمد ثنا زكريا الساجي ثنا محمد بن زنبور قال سمعت فضيل بن عياض يقول: إن هؤلاء أشربت قلوبهم حب أبي حنيفة وأفرطوا فيه حتى لا يرون أن أحدا كان أعلم منه، كما أفرطت الشيعة في حب علي، وكان والله سفيان أعلم منه
فضیل بن عیاض کہتے ہیں کہ "ان لوگوں کے دلوں میں ابو حنیفہ کی محبت اس طرح رچ بس گئی ہے اور وہ اس میں اتنے حد سے بڑھ گئے ہیں کہ وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کوئی بھی اُن سے زیادہ علم والا نہیں تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے شیعہ علیؓ کی محبت میں حد سے بڑھ گئے ہیں۔ حالانکہ، قسم اللہ کی! سفیان (ثوری) ان سے زیادہ علم رکھتے تھے۔"
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة ٦/٣٥٨ )
اعتراض نمبر 9 :
امام أبو نعيم الأصبهاني (٤٣٠هـ) اپنی کتاب حلية الأولياء میں نقل کرتے ہیں کہ امام مالک نے امام ابو حنیفہ کو گمراہوں میں شمار کیا۔
حدثنا محمد بن أحمد بن الحسن ثنا جعفر بن محمد الفريابي ثنا الحسن ابن علي الحلواني - بطرسوس سنة ثلاث وثلاثين ومائتين - قال سمعت مطرف ابن عبد الله يقول: سمعت مالك بن أنس إذا ذكر عنده أبو حنيفة والزائغون في الدين يقول: قال عمر بن عبد العزيز: سن رسول الله ﷺ وولاة الأمر بعده سننا الأخذ بها اتباع لكتاب الله، واستكمال لطاعة الله، وقوة على دين الله، ليس لأحد من الخلق تغييرها ولا تبديلها، ولا النظر في شيء خالفها، من اهتدى بها فهو مهتد، ومن استنصر بها فهو منصور، ومن تركها اتبع غير سبيل المؤمنين، وولاه الله ما تولى، وأصلاه جهنم وساءت مصيرا.
محمد بن احمد بن حسن نے ہمیں روایت کی، جعفر بن محمد الفریابی نے ہمیں روایت کی، اور الحسن بن علی الحلوانی نے کہا:
"میں نے مطرف بن عبداللہ کو کہتے سنا کہ وہ کہتے ہیں: میں نے مالک بن انس کو سنا، جب ان کے سامنے ابو حنیفہ اور دین میں گمراہ لوگ (زائغون) کا ذکر ہوتا تھا، وہ کہتے:
'عمر بن عبدالعزیز نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی سنت اور ان کے بعد حکمرانوں کی سنت ایسی ہے جس پر عمل کرنا اللہ کے کتاب کی پیروی اور اللہ کی اطاعت کو مکمل کرنا ہے، اور دین پر مضبوطی کے لیے ہے۔ کسی بھی انسان کو اسے بدلنے یا اس میں تبدیلی کرنے کا حق نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی چیز جس کے خلاف ہو اس پر غور کرے۔
جو شخص اس پر عمل کرے، وہ ہدایت یافتہ ہے، جو اس کی مدد کرے، وہ کامیاب ہے، اور جو اس کو چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلے، وہ مومنوں کے راستے پر نہیں۔ اللہ نے جسے اس راستے پر نہیں رکھا، اسے جهنم کا سامنا ہے اور انجام بھی برا ہے۔'"
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة ٦/٣٢٤ )
جواب : تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں