كتاب الجرح والتعديل – امام ابن أبي حاتم الرازي (ت ٣٢٧هـ) میں فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ پر مروی جروحات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
كتاب الجرح والتعديل – امام ابن أبي حاتم الرازي (ت ٣٢٧هـ) میں فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ پر مروی جروحات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
اس پوسٹ میں ہم فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے بارے میں محدث أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم الحنظلي الرازي (ت ٣٢٧ هـ) کی کتاب الجرح والتعديل میں موجود تنقیدات و اعتراضات کا جائزہ لیں گے۔ البتہ وہ اعتراضات و تنقیدات جن کا تفصیلی جواب ہم پہلے کسی اور پوسٹ میں دے چکے ہیں، اُنہیں یہاں دوبارہ ذکر نہیں کریں گے، بلکہ ان کا لنک فراہم کریں گے جو ہماری "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ہوگا۔ اس طرح قارئین وہاں جا کر ان کے جوابات تفصیل سے مطالعہ کر سکیں گے۔البتہ ہم اس پوسٹ میں اُن اعتراضات کا بھی جائزہ لیں گے جو امام ابنِ ابی حاتمؒ نے اپنی دیگر کتب میں امام ابو حنیفہؒ پر کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم کتاب الجرح والتعديل سے ایسے بعض رواۃ کے بارے میں بھی ذکر کریں گے جن پر محض رائے اور فقہی وابستگی کی بنیاد پر کلام کیا گیا۔ حالانکہ وہ اپنی ذات میں حدیث کے معاملے میں سچے اور قابلِ اعتماد تھے، لیکن چونکہ وہ امام اعظمؒ کے تلامذہ میں سے تھے، اس تعصب کی بنا پر بعض محدثین نے ان سے روایت قبول نہیں کی۔
اعتراض نمبر 1: امام ابو حنیفہؒ کی فقاہت اور علمی مقام کو گھٹانے کی کوشش۔
قال سفيان الثوري: ما سألت ابا حنيفة عن شئ، ولقد كان يلقاني ويسألني عن [أشياء - ٢] . فهذا بين واضح إذ كان صورة الثوري عنده هذه الصورة أن يفزع إليه في السؤال عما يشكل عليه (٣ د) أنه قد رضيه إماما لنفسه ولغيره.
ابو محمد (ابن أبي حاتم ) کہتے ہیں: سفیان ثوری نے کہا:
"میں نے کبھی ابو حنیفہ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کیا، بلکہ وہ خود مجھ سے ملتے اور مجھ سے مختلف چیزوں کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے۔"
یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امام ابو حنیفہ کے نزدیک سفیان ثوری کی یہی حیثیت تھی کہ وہ اُن سے اشکال پیش آنے پر سوال کیا کرتے تھے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ نے اُنہیں اپنے اور دوسروں کے لیے امام تسلیم کیا تھا۔
(الجرح والتعديل - الرازي - ج ١ - الصفحة ٣)
یہ روایت کہ سفیان ثوری امام ابو حنیفہ سے استفادہ نہیں کرتے تھے اور امام ابو حنیفہ صرف ان سے استفادہ کرتے تھے کسی طور معتبر نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس واضح شہادت یہ ہے کہ خود سفیان ثوری رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ سے فقہی استفادہ کرتے تھے۔ یہی بات اس امر کی دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہؒ صحیح علم و فقاہت کے مالک تھے، اسی لیے سفیان جیسے بڑے امام ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔
مزید برآں فقہ سفیان ثوری، فقہ حنفی کے بہت قریب ہے، جو اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ ان کے اجتہادی اصول اور فقہی سوچ، امام ابو حنیفہ کی فکر سے متاثر اور ہم آہنگ تھی۔ امام ابو سفیان صالح بن مہران فرماتے ہیں کہ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے صرف 15 مسائل میں اختلاف کیا تھا۔حوالہ: طبقات المحدثين بأصبهان 218/2، تمام رواة ثقہ ہیں۔
جن لوگوں نے امام ابو حنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ کے درمیان موازنہ کیا، انہوں نے امام ابو حنیفہؒ کو ہی فضیلت اور برتری دی ہے۔ مثال کے طور پر:
-
حسن بن علی حلوانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے یزید بن ہارون سے پوچھا: "اے ابو خالد! آپ نے اپنی زندگی میں سب سے بڑے فقیہ کسے پایا؟"انہوں نے جواب دیا: "ابو حنیفہ۔"
-
(حسن بن علی کہتے ہیں:) پھر میں نے ابو عاصم النبیل سے پوچھا: "آپ کے نزدیک ابو حنیفہ فقیہ تھے یا سفیان ثوری؟"تو ابو عاصم نے صاف جواب دیا: "میرے نزدیک ابو حنیفہ، سفیان سے زیادہ فقیہ تھے۔"
مزید یہ کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ ان کی زندگی ہی میں کوفہ سے نکل کر پورے آفاق میں پھیل چکی تھی۔
سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں کہ دوچیزوں کے باریمیں میرا گمان تھا کہ وہ کوفہ کے پل سے تجاوز نہیں
کریں گی لیکن وہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں ایک حمزہ کی قراء ت اور دوسرے ابوحنیفہ ؒ کے اجتہادات ۔
(تاریخ بغداد ج:۱۵ ص:۴۷۵،شیخ بشار عواد معروف اسکی سند کو بھی صحیح کہتے ہیں )
آپ کے شاگرد ہزاروں کی تعداد میں مختلف شہروں میں جا کر علمِ فقہ کی خدمت کر رہے تھے، یہاں تک کہ آپ کی فقہ نے ایک منظم مکتبۂ فکر کی حیثیت اختیار کر لی۔ اس کے مقابلے میں سفیان ثوریؒ اپنی زہد و ورع اور علمِ حدیث میں جلیل القدر مقام رکھتے ہیں، مگر ان کی فقہ اس طرح منظم نہ ہو سکی اور نہ ہی امت میں ایک مستقل فقہی مکتب کی شکل اختیار کر سکی۔ یہی وجہ ہے کہ آج فقہ حنفی زندہ ہے اور کروڑوں مسلمان اس پر عمل پیرا ہیں، لیکن فقہ ثوری کا وجود عملاً باقی نہیں رہا۔
الزامی جواب:
اگر مان بھی لیں کہ امام ابو حنیفہؒ سفیان سے سوال کرتے تھے تو سوال کرنا علمی کمی کی علامت نہیں بلکہ تحقیق اور تنقیح کی دلیل ہے۔ بڑے بڑے ائمہ ایک دوسرے سے سوال کرتے رہے ہیں۔ پھر سوال صرف اس وقت حجت بنتا ہے جب دوسرے کے جواب کو بھی مانا جائے۔ مگر تاریخی شواہد اس کے برعکس ہیں کہ خود سفیان نے کئی مسائل میں ابو حنیفہؒ کی رائے کو اختیار کیا۔
اعتراض نمبر 18 : امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ
اعتراض نمبر 75 : کہ سفیان ثوری نے جب ابو حنیفہ کی وفات کی خبر سنی تو کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مسلمانوں کو اس سے آرام پہنچایا۔ اس نے اسلام کا کڑا ، ایک ایک حلقہ کر کے توڑا اور اس سے بڑھ کر کوئی منحوس اسلام میں پیدا نہیں ہوا۔
اعتراض نمبر 37 : امام اعظم ابو حنیفہؒ پر محدثین کے تعصب کی چند شرمناک مثالیں
اعتراض نمبر 2:
حدثنا عبد الرحمن نا أبو بكر الجارودي محمد بن النضر النيسابوري قال سمعت أحمد بن حفص يقول سمعت أبي يقول سمعت إبراهيم بن طهمان يقول: أتيت المدينة فكتبت بها ثم قدمت الكوفة فأتيت أبا حنيفة في بيته فسلمت عليه فقال لي: عمن كتبت هناك؟ فسميت له، فقال: هل كتبت عن مالك بن أنس شيئا؟ فقلت: نعم، فقال: جئني بما كتبت عنه، فأتيته به، فدعا بقرطاس ودواة فجعلت
أملي عليه وهو يكتب.
قال أبو محمد ما كتب أبو حنيفة عن ابراهيم بن ط عن مالك بن أنس ومالك بن أنس حي إلا وقد رضيه ووثقه ولا سيما إذ (١) قصد من بين جميع من كتب عنه بالمدينة مالك بن أنس وسأله أن يملي عليه حديثه فقد جعله إماما لنفسه ولغيره.
ترجمہ: ابراہیم بن طَہمان کہتے ہیں : میں مدینہ منورہ آیا تو وہاں (احادیث) لکھیں، پھر کوفہ آیا تو امام ابوحنیفہؒ کے گھر گیا اور ان پر سلام کیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: وہاں (مدینہ میں) کس سے (احادیث) لکھی ہیں؟ میں نے ان کے نام گنائے۔ تو انہوں نے پوچھا: کیا امام مالک بن انس سے بھی کچھ لکھا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔
امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: جو کچھ امام مالکؒ سے لکھا ہے وہ مجھے لا کر دکھاؤ۔ چنانچہ میں لے آیا۔ انہوں نے کاغذ اور دوات منگوائی اور میں پڑھتا گیا اور وہ خود لکھتے گئے۔
ابو محمد (ابن أبي حاتم ) کہتے ہیں: "ابوحنیفہؒ نے ابراہیم بن طہمان کے واسطے سے امام مالک بن انس کی روایات لکھیں، حالانکہ اس وقت امام مالکؒ زندہ تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے امام مالکؒ کو پسند کیا اور ان پر اعتماد کیا، بالخصوص اس وقت جب انہوں نے مدینہ کے تمام محدثین میں سے خاص طور پر امام مالکؒ کی حدیث اپنے لیے منتخب کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ ان کی احادیث اُنہیں املا کریں۔ پس انہوں نے امام مالکؒ کو اپنے اور دوسروں کے لیے امام تسلیم کرلیا۔"
(الجرح والتعديل - الرازي - ج 1 - الصفحة 4)
جواب :- دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر55 : کیا امام مالکؒ، امام ابو حنیفہؒ کے استاد تھے؟
اعتراض نمبر 3:
وأما محمد بن الحسن فحدثنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم قال سمعت الشافعي يقول قال لي محمد بن الحسن: أيهما أعلم صاحبنا أم صاحبكم؟ يعني أبا حنيفة ومالك بن أنس - قلت: على الانصاف؟ (٣ ك) قال: نعم.قلت: فأنشدك الله من أعلم بالقرآن - صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم - يعنى ماكا. قلت فمن أعلم بالسُّنة - صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: اللهم صاحبكم، قلت: فأنشدك الله من أعلم بأقاويل أصحاب رسول الله ﷺ والمتقدمين - صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم، قال الشافعي: فقلت: لم يبق إلا القياس، والقياس لا يكون إلا على هذه الأشياء فمن لم يعرف الاصول فعلى أي شئ يقيس؟.
قال عبد الرحمن فقد قدم محمد بن الحسن مالك بن أنس على أبي حنيفة وأقر له بفضل العلم بالكتاب والسُّنة والآثار وقد شاهدهما وروي عنهما.
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان ایک مناظرہ جس کا خلاصہ سے یہ ہے کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ہر علم میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر ترجیح دیتے تھے۔
(الجرح والتعديل - الرازي - ج 1 - الصفحة 4)
جواب :-
اس روایت کی بنیاد ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے جھوٹ کی طرف امام ربیع بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ اور امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ (شاگرد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ) نے اشارہ کیا ہے۔ تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 34 : امام شافعی رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح :
حدثنا عبد الرحمن قال وقد حدثنا أبي رحمه الله نا محمد بن عبد الله ابن عبد الحكم قال سمعت الشافعي يقول: كان محمد بن الحسن يقول: سمعت من مالك سبعمائة حديث ونيفا إلى الثمانمائة - لفظا.
وكان أقام عنده ثلاث سنين أو شبيها بثلاث سنين، وكان إذا وعد الناس أن يحدثهم عن مالك امتلأ الموضع الذي هو فيه وكثر الناس عليه، وإذا
حدث عن غير مالك لم يأته إلا النفير، فقال لهم لو أراد أحد أن يعيبكم بأكثر مما تفعلون ما قدر عليه، إذا حدثتكم عن أصحابكم فإنما يأتيني النفير أعرف فيكم الكراهة، وإذا حدثتكم عن مالك امتلأ على الموضع.
فقد بان بلزوم (١) محمد بن الحسن مالكا لحمل (٢) العلم عنه وبثه في الناس، رضا منه وموافقة لمن جعله إماما ومختارا.
عبدالرحمٰن کہتے ہیں: ہمیں میرے والد (اللہ ان پر رحم فرمائے) نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے محمد بن عبداللہ بن عبدالْحکم نے روایت کی، کہا: میں نے امام شافعی کو یہ کہتے سنا: "امام محمد بن حسن کہا کرتے تھے: میں نے امام مالک سے سات سو سے کچھ زائد، بلکہ آٹھ سو کے قریب احادیث لفظاً روایت کی ہیں۔" وہ تقریباً تین سال یا اس کے قریب امام مالک کی صحبت میں رہے۔ جب کبھی وہ اعلان کرتے کہ میں آج مالک کی حدیث بیان کروں گا تو جگہ لوگوں سے بھر جاتی اور ہجوم لگ جاتا۔ اور جب وہ کسی اور کی حدیث بیان کرتے تو چند ہی لوگ آتے۔
وہ کہتے: "اگر کوئی چاہے کہ تم پر عیب لگائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا؟ جب میں تمہارے اپنے مشائخ کی حدیث بیان کرتا ہوں تو چند لوگ آتے ہیں اور ناگواری ظاہر کرتے ہو، لیکن جب مالک کی حدیث بیان کرتا ہوں تو جگہ بھر جاتی ہے۔"
یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ امام محمد بن حسن نے امام مالک کے ساتھ مستقل رہ کر ان سے علم لیا اور پھر اس کو لوگوں میں پھیلایا۔ یہ ان کی رضا اور اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے مالک کو امام و مقتدا مانا۔
(الجرح والتعديل - الرازي - ج 1 - الصفحة 4)
جواب :
1. اگر امام ابن ابی حاتم یہاں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام محمد کے مشائخِ کوفہ کی حدیثوں کو لوگ وقعت نہ دیتے تھے امام مالک کے مقابلے میں، تو یہ استدلال ناقص ہے۔ اس لیے کہ ہر عالم ایک خاص فن میں زیادہ مشہور ہوتا ہے اور لوگ اسی فن میں اس سے زیادہ استفادہ کرتے ہیں۔ امام مالک حدیث میں مشہور تھے تو لوگ ان کی روایتیں حاصل کرتے۔ اہلِ رائے (یعنی امام ابو حنیفہ اور ان کے مشائخ) فقہ میں زیادہ مشہور تھے، اس لیے ان سے فقہی مسائل لیے جاتے۔
2. امام شافعی جیسے محدث بھی فرماتے ہیں کہ:
> سمعت الشافعي محمد بن إدريس يقول : الناس عيال على أبي حنيفة في الفقه .
> یعنی فقہ میں سب لوگ ابو حنیفہ کے محتاج ہیں۔
( فضائل أبي حنيفة ص 87 ، سند صحیح )
اس کا مطلب یہ نہیں کہ امام مالک فقہ سے خالی تھے یا امام ابو حنیفہ حدیث سے ناواقف تھے، بلکہ یہ ہے کہ ہر ایک کو ایک فن میں زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔
مثال کے طور پر:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت مشہور تھی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت مشہور تھی۔
مگر اہلِ سنت میں سے کوئی یہ نہیں کہے گا کہ حضرت عثمان میں شجاعت نہ تھی یا حضرت علی میں سخاوت نہ تھی۔ اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ امام مالک میں فقاہت کم تھی یا امام ابو حنیفہ میں حدیث کی مہارت نہ تھی۔
3. حقیقت یہ ہے کہ دونوں حضرات علم کے سمندر تھے، اور دونوں نے ایک دوسرے کے علم سے استفادہ کیا: امام مالک حدیث و فقہ دونوں میں ماہر تھے، پھر بھی وہ امام ابو حنیفہ کی فقہ سے فائدہ اٹھاتے تھے (فضائل ابی حنیفہ واخبارہ ومناقبہ لابن ابی عوام : صفحہ ۲۳۵)۔ امام ابو حنیفہ فقہ و حدیث دونوں میں ماہر تھے، پھر بھی انہوں نے امام مالک سے روایات ابراہیم بن طہمان کے واسطے سے لکھیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں حضرات علم میں ایک دوسرے کے محتاج نہیں بلکہ ایک دوسرے کے علوم کے قدردان تھے۔
4. اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امام محمد بن حسن کی عظمت بہت بلند تھی:
انہوں نے امام مالک سے بھی علم لیا۔ اپنے استاد امام ابو حنیفہ سے بھی۔ امام ابو یوسف سے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسے ائمہ نے فقہی مسائل میں امام محمد بن حسن سے استفادہ کیا۔
قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
5. امام ابن ابی حاتم (جو فقہ میں شافعی تھے) اگر امام محمد کے مشائخِ کوفہ کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان کی ذاتی رائے ہے، مگر حقیقت میں: اس روایت سے امام محمد کے مشائخِ کوفہ کی عدالت یا ثقاہت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
بلکہ اس سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں:
1. امام مالک کی حدیث میں جلالت اور عظمت۔
2. امام محمد بن حسن کی عظمت کہ وہ دونوں مکتبۂ فکر سے جُڑ کر علم کے وارث بنے۔
لہٰذا امام ابن ابی حاتم کی یہ کوشش کہ مشائخِ کوفہ کی وقعت کم دکھائی جائے، سود مند نہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ائمہ ایک دوسرے کے علم سے استفادہ کرتے تھے اور یہ امت کے لیے خیر و برکت کا سبب تھا۔
اعتراض نمبر 5:
تركه ابن المبارك بأخرة سمعت أبي يقول ذلك.
امام عبداللہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے آخری عمر میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کر دیا تھا
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ٨/٤٤٩)
جواب : اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر29 : امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے آخری عمر میں امام ابو حنیفہ کو ترک کر دیا تھا ۔
اعتراض نمبر 6:
نا عبد الرحمن حدثني أبي قال سمعت محمد بن كثير العبدي يقول كنت عند سفيان الثوري فذكر حديثا فقال رجل حدثني فلان بغير هذا، فقال من هو؟ قال: أبو حنيفة، قال: أحلتني على غير ملئ
میں نے محمد بن کثیر العبدي کو کہتے ہوئے سنا: میں سفیان ثوریؒ کی مجلس میں حاضر تھا۔ انہوں نے ایک حدیث بیان کی۔تو ایک شخص نے کہا: "مجھے فلاں نے اس کے خلاف روایت کی ہے۔" سفیانؒ نے پوچھا: "وہ کون ہے؟" اس نے کہا: "ابو حنیفہ۔" سفیانؒ نے جواب دیا: "تم نے مجھے ایسے شخص کی طرف حوالہ دیا ہے جو معتبر نہیں۔"
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ٨/٤٤٩)
جواب : اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 7:
حدثنا عبد الرحمن حدثني أبي نا الحميدي نا وكيع: نا أبو حنيفة أنه سمع عطاء إن كان سمعه:
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ٨/٤٤٩)
جواب : اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 8:
نا عبد الرحمن نا صالح بن أحمد [بن محمد - ٤] بن حنبل نا علي يعني ابن المديني قال سمعت يحيى بن سعيد يقول: مربى أبو حنيفة وانافى سوق [الكوفة - ١] فلم أسأله عن شئ وكان جارى بالكوفة فما قربته ولا سألته عن شئ.
امام یحییٰ بن سعیدؒ نے بازار میں امام ابو حنیفہؒ سے روایت نہیں سنی۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ٨/٤٤٩)
جواب : یہاں بھی انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ہم محدثین کے آدابِ سماع کو سامنے رکھیں:
بازار جیسی جگہ کو احادیث سننے کے لیے نامناسب سمجھا جاتا تھا جیسا کہ حدیث میں ہیکہ بازار اللہ کے ہاں نا پسندیدہ جگہوں میں سے ہے۔
اسی لیے اگر کسی امام نے وہاں سماع سے گریز کیا تو یہ حدیث یا راوی پر اعتراض نہیں بلکہ محلِ سماع کا ادب تھا۔
تو یہ واقعہ امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت پر کسی تنقیص کی دلیل نہیں بن سکتا، جیسا کہ بعض متعصب ذہنوں نے سمجھا۔
تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 9:
نا عبد الرحمن أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فيما كتب إلى عن أبي عبد الرحمن المقرئ قال: كان أبو حنيفة يحدثنا فإذا فرغ من الحديث قال: هذا الذى سمعتم كله ريح وباطل (٢) .
(الجرح والتعديل - الرازي - ج ٨ - الصفحة ٤٥٠)
جواب : اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 10:
نا عبد الرحمن أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فيما كتب إلى [قال - ١] حدثنى اسحاق بن راهويه قال سمعت جريرا يقول قال محمد بن جابر اليمامى: سرق (٣) ابو حنيفة كتب حماد منى.
نا عبد الرحمن نا أحمد بن منصور المروزي قال سمعت سلمة بن سليمان قال قال عبد الله - يعني ابن المبارك: ان اصحابي ليلو موننى في الرواية عن ابى حنيفة، وذاك انه اخذ كتاب محمد بن جابر عن حماد بن أبي سليمان فروى عن حماد ولم يسمعه منه.
(الجرح والتعديل - الرازي - ج ٨ - الصفحة ٤٥٠)
جواب : اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 20 : محمد بن جابر اليمامى نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں ۔
اعتراض نمبر 11:
نا عبد الرحمن نا محمد بن حمويه بن الحسن قال سمعت الحسين بن الحسن المروزى يقول ذكر أبو حنيفة عند احمد بن حنبل فقال: رأيه مذموم وبدنه لا يذكر.
جب امام احمد بن حنبل کے سامنے امام ابو حنیفہ کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا: "ان کی رائے قابل مذمت ہے اور ان کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔"
(الجرح والتعديل - الرازي - ج ٨ - الصفحة ٤٥٠)
جواب : اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح
اعتراض نمبر 12:
حدثنا عبد الرحمن ثنا حجاج بن حمزة قال نا عبدان ابن عثمان قال سمعت ابن المبارك يقول: كان أبو حنيفة مسكينا في الحديث
( الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : ٨ / ٤٥٠ )
جواب : اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر30 : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حدیث میں یتیم یا مسکین تھے
اعتراض نمبر 13:
نا عبد الرحمن أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فيما كتب إلي قال سمعت أبا نعيم الفضل بن دكين قال سمعت ابا حنيفة يقول لابي يوسف: انكم تكتبون في كتابنا ما لا نقوله.
امام ابو حنیفہ نے ابو یوسف سے یہ کہا کہ تم ہماری کتاب میں وہ باتیں لکھتے ہو جو ہم کہتے ہی نہیں۔
(الجرح والتعديل - الرازي - ج ٨ - الصفحة ٤٥٠)
جواب : اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 45 : حنفی مذہب کے تین کذاب: ایک تحقیقی جائزہ اور علمی جواب — حنفی فقہ کے تین مینار: علم، عدل، اور اجتہاد کے علمبردار
اعتراض نمبر 14:
قال أبو حاتم: حدثت عن سفيان بن عيينة، قال: لقيني أبو حنيفة، فقال لي: كيف سماعك عن عمرو بن دينار ؟ قال: قلت له أكثرت عنه. قال: لكني لم أسمع منه إلا حديثين. قال: قلت: ما هو؟ فقال: حدثنا عمرو، عن جابر بن عبد الله «في [أخباري]»، فقلت: حدثنا عمرو، عن جابر بن زيد ليس جابر بن عبد الله، قلت: وما الآخر؟ فقال: حدثنا عمرو، عن ابن الحنفية عن علي: «لقد ظلم من لم يورث الإخوة من الأم» فقلت: حدثنا عمرو، عن عبد الله بن محمد بن علي ليس بابن الحنفية.
قال سفيان: «فإذا هو قد أخطأ فيهما جميعا
(سؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي - ت الهاشمي ٢/٧٥٦ )
ابو حاتم نے سفیان بن عُیینہ سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا: مجھے ابو حنیفہ ملے اور مجھ سے پوچھا: ’’تمہارا عمرو بن دینار سے سماع کیسا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’میں نے ان سے بہت کچھ سنا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’لیکن میں نے ان سے صرف دو حدیثیں سنی ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’وہ کیا ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے جابر بن عبد اللہ سے حدیث بیان کی...‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے جابر بن زید سے حدیث بیان کی ہے، نہ کہ جابر بن عبد اللہ سے۔‘‘ میں نے کہا: ’’اور دوسری حدیث؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے ابن الحنفیہ سے علیؓ سے روایت کی: ’جس نے ماں شریک بھائیوں کو میراث نہ دی، اس نے ظلم کیا۔‘‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے عبداللہ بن محمد بن علی سے حدیث بیان کی، نہ کہ ابن الحنفیہ سے۔‘‘ سفیان نے کہا: ’’تو وہ دونوں حدیثوں میں غلطی پر تھے۔‘‘
جواب :
امام ابو حاتم (جن کی پیدائش 195ھ ہے) نے امام سفیان بن عیینہ (جن کی وفات 196 یا 198ھ ہے) سے اتنی چھوٹی عمر میں کیسے یہ روایت سن لی ؟
حدثت کا صیغہ سند میں انقطاع بتا رہا ہے ، مزید یہ کہ اس روایت کا متن بھی منکر ہے ، امام صاحب نے عمرو بن دینار سے صرف 2 روایتیں سنی ہیں یہ صریح جھوٹ ہے جیسا کہ کتب میں امام صاحب کی عمرو بن دینار سے بہت سی روایات ملتی ہیں ۔ مثلا
▪︎ كتاب الآثار 636 - 1019 - 1021 ( الآثار لأبي يوسف ١/٢٣٠، الآثار لأبي يوسف ١/٢٣١ ، الآثار لأبي يوسف ١/١٤٠ )
▪︎ مسند أبي حنيفة برواية أبو نعيم 2 روايات
▪︎ سنن البيهقي 8209 - 14342 -
لہذا ابو حاتم والی روایت بھی ضعیف ہے اور متن بھی منکر ہے ، پس معترضین کا امام اعظم پر اعتراض باطل ہے ۔
ہم چند ایسے راویوں کا ذکر کریں گے جن پر بعض محدثین نے جرح میں حد سے بڑھ کر زیادتی کی، اور اس زیادتی کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ راوی امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے تھا یا ان کی فکر سے وابستہ تھے۔
هارون بن عمرو بن يزيد المخزومى الدمشقي
هارون بن عمرو بن يزيد [بن زياد - ٢] بن أبي زياد المخزومى الدمشقي روى عن الوليد [يعنى - ٢] ابن مسلم ومحمد بن شعيب بن شابور ويحيى بن سليم الطائفي روى عنه صالح بن بشير (٣) بن سلمة الطبراني. نا عبد الرحمن قال سألت ابى عنه فقال: شيخ دمشقي ادركته، كان يرى رأى ابى حنيفة، وعلى العمد لم نكتب (٤) عنه، محله الصدق
ہارون بن عمرو بن یزید (بن زیاد) بن ابی زیاد مخزومی دمشقی۔ انہوں نے روایت کی ہے ولید بن مسلم، محمد بن شعیب بن شابور اور یحییٰ بن سلیم الطائفی سے۔ان سے روایت کی ہے صالح بن بشیر بن سلمہ طبرانی نے۔عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے اپنے والد سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا:"وہ شام (دمشق) کے شیخ تھے، میں نے ان کو پایا ہے۔ وہ ابو حنیفہ کی فقہ پر تھے۔ اور ہم نے جان بوجھ کر ان سے روایت نہیں لکھی۔ تاہم ان کا مقام صدق (سچائی) کا ہے۔" (الجرح والتعديل المؤلف : الرازي، ابن أبي حاتم الجزء : 9 صفحة :
93)
اس راوی سے روایت نہ لینے کی اصل وجہ یہ بیان کی کہ وہ "ابو حنیفہ کی فقہ پر تھا"۔ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ محض فقہی وابستگی کی بنیاد پر صحیح اور ثقہ راویوں کو بھی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ یہ دراصل اس زمانے کے بعض محدثین کے اندر موجود تعصب کی جھلک ہے، ورنہ ایک اصولی اور غیر جانب دارانہ رویہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ اگر راوی ثقہ ہے تو اس کی روایت قبول کی جائے، چاہے وہ کسی بھی امام کی فقہ پر ہو۔
یہی وہ طرزِ عمل تھا جس کی وجہ سے بعض محدثین کے یہاں فقہی تعصب کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کو اپنانے والے صرف معمولی لوگ نہیں تھے بلکہ بڑے بڑے ثقہ، صدوق اور معتبر رواۃ بھی شامل تھے۔
الإمام أبو بكر إبراهيم بن رُستم المَرْوَزي الحنفي الفقيه
ابراہیم بن رستم مروزی، امام محمد بن حسن کے شاگرد اور فقہ حنفی کے بڑے فقیہ تھے۔ ان کے بارے میں ائمہ کے اقوال مختلف ملتے ہیں۔ امام یحییٰ بن معین جیسے متشدد ناقد نے انہیں "ثقة" کہا (تاريخ الدارمي عن ابن معين ص ٧٥ رقم ١٥١) جو ان کی بڑی توثیق ہے۔ امام ذہبی نے بھی انہیں نبیل اور جلیل القدر امام قرار دیا اور ان کے زہد و عبادت کا ذکر کیا، حتیٰ کہ خلیفہ مامون نے انہیں قضا کی پیشکش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ ان سے امام احمد بن حنبل جیسے ائمہ نے بھی روایت لی۔ دوسری طرف بعض محدثین نے ان پر جرح کی، جیسے امام ابو حاتم نے کہا: «كان يرى الإرجاء، ليس بذاك، محلُّه الصدق، وكان آفته الرأي، وكان يُذْكَرُ بسَتْرٍ وعِبَادَةٍ» (الجرح والتعديل ٢/٩٩-١٠٠) یعنی وہ مرجیہ کے قول کے قائل تھے، لیکن اپنی ذات میں سچے تھے، ان کی کمزوری رائے تھی ، اور وہ ستر و عبادت کے ساتھ ذکر کیے جاتے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان پر جرح کا اصل سبب فقہی اختلاف اور ان کی فقہ حنفی سے وابستگی تھی، نہ کہ ان کی صداقت یا دیانت میں کوئی نقص۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ثقہ بھی کہا گیا اور عبادت گزار بھی، مگر بعض نے محض فقہی مسلکی تعصب کی بنا پر ان پر کلام کیا۔
تفصیل کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں